Monday 14 July 2014

Black September When Ziaul Haq killed Palestinians in Jordan in 1969



Saturday 12 July 2014

چین ’مسلمان طلبہ کو روزہ رکھنے سے روکا جا رہا ہے‘

چین کے مغربی صوبے سنکیاناگ میں مسلمان طلبہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں رمضان کے دوران روزہ رکھنے سے روکا جا رہا ہے۔
تینوں طلبہ کا تعلق کاشگر نارمل یونیورسٹی سے ہے اور انھوں نے حکومتی اداروں کے ڈر سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں یونیورسٹی کے پروفیسروں کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے مجـبور کیا جا رہا ہے جبکہ انکار کرنے پر انھیں سزا دی جاتی ہے۔
ایک طلب علم نے کہا ’اگر آپ کو یہاں معمول کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے تو آپ کو روزے نہیں رکھنے ہوں گے‘۔
صوبے سنکیاناگ میں اقلیتی برادری اوغر آباد ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
یاد رہے کہ چین میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری چینی حکومت نے اسلامی شدت پسندوں پر عائد کی تھی۔
جمعرات کو سنکیاناگ میں ایک عدالت نے 32 لوگوں کو پرتشدد ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرنے اور اسے دوسرے لوگوں کو بھیجنے کے جرم میں سزائیں سنائی تھیں۔
تاہم سنکیانگ میں مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس انتہا پسندی کی وجہ چینی حکومت کی مسلمانوں کے مذہب اور ثقافت کے خلاف جبری پالیسیاں ہیں۔
تینوں طلبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پورے صوبے میں موجود یونیورسٹیوں میں روزہ رکھنے پر پابندی ہے اور کچھ ہسپتالوں میں تو مسلمان ملازمین کو روزہ نہ رکھنے کے معاہدوں پر دستخط کروائے گئے ہیں۔
رمضان اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسلمان طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کچھ نہیں کھاتے پیتے۔
تاہم بچوں اور بوڑھوں اور حاملہ خواتین کو اس معاملے میں چھوٹ ہے۔ حکومتی پروپیگینڈے کے تحت سنکیاناگ کے علاقے میں حکومتی اخبارات میں کھانا نہ کھانے کے نقصانات پر خصوصی طور پر چھاپا جا رہا ہے۔
طلبہ نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ یونیورسٹی حکام کی بات نہیں مانیں گے اور روزہ رکھیں گی، ان کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے کئی سرکاری دفاتر نے رمضان کے دوران مسلمان عملے کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

سفارتی کوششیں تاحال ناکام، غزہ میں کشیدگی جاری




اقوام متحدہ کے ایک ادارے کا کہنا ہے غزہ پر اسرائیل حملوں میں ہلاک ہونے والی تین چوتھائی افراد شہری ہیں۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اب تک ہونے والی اسرائیلی بمباری میں ایک سو بیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کو اسرائیل پر راکٹ حملے بند کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل حماس پر غزہ کے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
لندن میں ایک سنیئر فلسطینی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ غزہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے اور اس پر فضائی حملوں میں شہریوں کا ہلاک ہونا لازمی ہے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں تین چوتھائی عام شہری ہیں۔
ادھر اسرائیل کا کہنا ہے اس نے نئے حملوں میں ’دہشت گردی کے 60 سے زائد‘ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق بیرشیبا میں دو راکٹ گرے۔






اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے
خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری آپریشن کے پانچویں روز اب تک سینکڑوں میزائل اور راکٹ برسائے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں درجنوں ’دہشت گرد‘ شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے کی جانے والے جنگ بندی کی شدید سفارتی کوششوں کے باوجود فریقین جنگ بندی پر راضی نہیں ہیں۔
اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے جمعے کو کہا تھا کہ غزہ میں جاری حملوں کو روکنے کے حوالے سے عالمی دباؤ کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
ان کے مطابق ان حملوں کا مقصد اسرائیلی شہروں میں امن قائم کرنا ہے اور میں یہ مقصد حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
فلسطینی حکام کے مطابق بیتِ لیحا میں قائم ایک عمارت پر اسرائیلی حملے میں دو خواتین ہلاک ہو گئیں۔
فلسطین کی وزارتِ صحت کے مطابق جبیلا میں موجود ایک مکان پر حملے کے نتیجے میں تین دیگر افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس عمارت میں ہتھیار اکھٹے کیے جا رہے تھے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک ہلاک ہونے والوں 750 افراد میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔
اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے اسرائیل اور فلسطین پر کشیدگی ختم کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’غزہ میں صورتِ حال تباہی کے دہانے پر ہے۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ یہ خطہ ایک اور مکمل جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
بان کی مون نے کہا ’بگڑتی ہوئی صورتِ حال تیزی سے قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے،‘ اور ’تشدد پھیلنے کا خطرہ اب بھی حقیقی ہے۔‘
انھوں نے حماس سے اسرائیل پر راکٹ حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا اور اسرائیل پر بھی قابو میں رہنے پر زور دیتے ہوئے اسے عام شہریوں کے تحفظ کا خیال رکھنے کا کہا۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے منگل سے فلسطینی علاقے میں بمباری کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اب تک سینکڑوں حملے کیے جا چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملے حماس کی جانب سے اس کی سرزمین پر راکٹ حملوں کا ردعمل ہیں لیکن راکٹ حملوں سے اسرائیل میں ایک بھی شخص کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

Friday 11 July 2014