خوشا وہ دَور کہ جب تجھ سے رسم و راہ نہ تھی
سکون کفر نہ تھا زندگی گناہ نہ تھی
نفس نفس پہ ابھرتی ہوں سولیاں جیسے
حیات اتنی تو پہلے کبھی تباہ نہ تھی
بہ فیضِ حسرتِ دیدار خسروانِ جنوں
ادھر بھی دیکھ گئے جس طرف نگاہ نہ تھی
خود اپنی روشنئ طبع کے ستائے ہوئے
وہ ہم تھے دہر میں جن کو کہیں پناہ نہ تھی
وہ اک نگاہ کہ سب کچھ سمجھ لیا تھا جسے
تباہئ دل و جاں پر وہی گواہ نہ تھی
سکون کفر نہ تھا زندگی گناہ نہ تھی
نفس نفس پہ ابھرتی ہوں سولیاں جیسے
حیات اتنی تو پہلے کبھی تباہ نہ تھی
بہ فیضِ حسرتِ دیدار خسروانِ جنوں
ادھر بھی دیکھ گئے جس طرف نگاہ نہ تھی
خود اپنی روشنئ طبع کے ستائے ہوئے
وہ ہم تھے دہر میں جن کو کہیں پناہ نہ تھی
وہ اک نگاہ کہ سب کچھ سمجھ لیا تھا جسے
تباہئ دل و جاں پر وہی گواہ نہ تھی
No comments:
Post a Comment