ھر شبِ غم نے مجھے شکل دکھائی کیونکر
یہ بلا گھر سے نکالی ہوئی آئی کیونکر
تو نے کی غیر سے میری برائی کیونکر
گر نہ تھی دل میں تو لب پر تیرے آئی کیونکر
تم دل آزار و ستم گر نہیں میں نے مانا
مان جائے گی اسے ساری خدائی کیونکر
آئینہ دیکھ کے وہ کہنے لگے آپ ہی آپ
ایسے اچھوں کی کرے کوئی برائی کیونکر
کثرتِ رنج و الم سن کے یہ الزام ملا
اتنے سے دل میں ہے اتنوں کی سمائی کیونکر
داغ کل تک تو دعا آپ کی مقبول نہ تھی
آج منہ مانگی مراد آپ نے پائی کیونکر
Pages
- Home
- Best Ashaar by Ubbaid Ullah Aleem (my choice)
- abbas tabish
- aatish haider ali
- abid ali abid
- ada jafri
- adeem hashmi
- ahmad kamal
- Ahmed nadeem Qasmi
- Allama Iqbal
- Altaf Hussain Hali
- Amjad Islam Amjad
- Akhtar raza saleemi
- anwar maqsood
- Aqa hashir
- Bashir Badar
- Bahadur Shah Zafar
- indian movies
- Bismill Allahbadi
- Daagh Dehlvi
Tuesday, 31 January 2012
her su dekhai deetay hoo jalva gar mujhy
ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر انہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے
میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے
دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
woh dil lay k chupkay say chultay huy
وہ دل لے کے چپکے سے چلتے ہوئے
یہاں رہ گئے ہاتھ ملتے ہوئے
الٰہی وہ نکلے تو ہیں سیر کو
چلے آئیں مجھ تک ٹہلتے ہوئے
نہ اِترائیے دیر لگتی ہے کیا
زمانے کو کروٹ بدلتے ہوئے
مرے جذبِ دل پر نہ الزام آئے
وہ آتے ہیں آنکھیں بدلتے ہوئے
داغ
saba khula humain unkay maun chupanay ka
سبب کھلا یہ ہمیں ان کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا
طریقِ خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں تا حشر اس کے آنے کا
چڑھاؤ پھول مری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا
وہ عذر جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کھانے کا
بہ تنگ آ کے جو کی میں نے ترک رسمِ وفا
ہر اک سے کہتے ہیں یہ حال ہے زمانے کا
جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر نہیں یہ میرے ہاتھ آنے کا
نہ سوچے ہم کہ تہِ تیغ ہو گی خلق اللہ
گھٹا نہ حوصلہ قاتل کے دل بڑھانے کا
اثر ہے اب کے مئے تند میں وہ اے زاہد
کہ نقشہ تک بھی نہ اترے شراب خانے کا
سمائیں اپنی نگاہوں میں ایسے ویسے کیا
رقیب ہی سہی، ہو آدمی ٹھکانے کا
لگی ہے چاٹ مجھے تلخی محبت کی
علاج زہر سے مشکل ہے زہر کھانے کا
تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ
نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا
لگی ٹھکانے سے بلبل کی خانہ بربادی
چراغ ِگل میں بھی تنکا ہے آشیانے کا
خطا معاف، تم اے داغ اور خواہشِ وصل
قصور ہے یہ فقط ان کے منہ لگانے
pheray raah say woh yooun atay atay
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر ری تو کہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گیا آندھیاں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
vaiz bara maza hoo agar yooun azab ho
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جامِ شراب ہو
معشوق کا تو جُرم ہو، عاشق خراب ہو
کوئی کرے گناہ کسی پر عذاب ہو
وہ مجھ پہ شیفتہ ہو مجھے اجتناب ہو
یہ انقلاب ہو تو بڑا انقلاب ہو
دنیا میں کیا دھرا ہے؟ قیامت میں لطف ہو
میرا جواب ہو نہ تمہارا جواب ہو
نکلے جدھر سے وہ، یہی چرچا ہوا کیا
اس طرح کا جمال ہو ایسا شباب ہو
در پردہ تم جلاؤ، جلاؤں نہ میں چہ خوش
میرا بھی نام داغ ہے گر تم حجاب ہو
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جامِ شراب ہو
معشوق کا تو جُرم ہو، عاشق خراب ہو
کوئی کرے گناہ کسی پر عذاب ہو
وہ مجھ پہ شیفتہ ہو مجھے اجتناب ہو
یہ انقلاب ہو تو بڑا انقلاب ہو
دنیا میں کیا دھرا ہے؟ قیامت میں لطف ہو
میرا جواب ہو نہ تمہارا جواب ہو
نکلے جدھر سے وہ، یہی چرچا ہوا کیا
اس طرح کا جمال ہو ایسا شباب ہو
در پردہ تم جلاؤ، جلاؤں نہ میں چہ خوش
میرا بھی نام داغ ہے گر تم حجاب ہو
koi pheray na qowl say bus faisla hua
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہوا
بوسہ ہمار ا آج سے ، دل آپ کا ہوا
ماتم ہمارے مرنے کا اُنکی بلا کرے
اتنا ہی کہہ کے چھوٹ گئے وہ، بُرا ہوا
آباد کس قدر ہے، الٰہی، عدم کی راہ
ہر دم مسافروں کا ہے تانتا لگا ہوا
اے کاش، میرے تیرے لیئے کل یہ حکم ہو
لے جاؤ ان کو خلد میں، جو کچھ ہوا ہوا
کس کس طرح سے اُسکو جلاتے ہیں رات دن
وہ جانتے ہیں داغ ہے ہم پر مٹا ہو
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہوا
بوسہ ہمار ا آج سے ، دل آپ کا ہوا
ماتم ہمارے مرنے کا اُنکی بلا کرے
اتنا ہی کہہ کے چھوٹ گئے وہ، بُرا ہوا
آباد کس قدر ہے، الٰہی، عدم کی راہ
ہر دم مسافروں کا ہے تانتا لگا ہوا
اے کاش، میرے تیرے لیئے کل یہ حکم ہو
لے جاؤ ان کو خلد میں، جو کچھ ہوا ہوا
کس کس طرح سے اُسکو جلاتے ہیں رات دن
وہ جانتے ہیں داغ ہے ہم پر مٹا ہو
mera judaa mizaj hy unka judaa mizaj
غزل
(استاد بلبلِ ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
میرا جُدا مزاج ہے اُن کا جُدا مزاج
پھر کس طرح سے ایک ہو اچھا بُرا مزاج
دیکھا نہ اس قدر کسی معشوق کا غرور
اللہ کیا دماغ ہے اللہ کیا مزاج
کس طرح دل کا حال کھُلے اس مزاج سے
پوچھوں *مزاج تو وہ کہیں، آپ کا مزاج
تم کیا کسی کے دل میں بھلا گھر بناؤ گے
بنتا نہیں بنائے سے بگڑا ہُوا مزاج
پالا پڑے کہیں نہ کسی بدمزاج سے
ہر وقت دیکھتے ہیں مزاج آشنا مزاج
کل اُن کا سامنا جو ہوا خیر ہوگئی
بدلی ہوئی نگاہ تھی بدلا ہوا مزاج
اُن کو بغیر چھیڑ کئے چین ہی نہیں
کتنی شریر طبع ہے کیا چلبلا مزاج
سچ ہے خدا کی دین میں*کیا دخل ہوسکے
اک داغ کا مزاج ہے اک آپ کا مزاج
(استاد بلبلِ ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
میرا جُدا مزاج ہے اُن کا جُدا مزاج
پھر کس طرح سے ایک ہو اچھا بُرا مزاج
دیکھا نہ اس قدر کسی معشوق کا غرور
اللہ کیا دماغ ہے اللہ کیا مزاج
کس طرح دل کا حال کھُلے اس مزاج سے
پوچھوں *مزاج تو وہ کہیں، آپ کا مزاج
تم کیا کسی کے دل میں بھلا گھر بناؤ گے
بنتا نہیں بنائے سے بگڑا ہُوا مزاج
پالا پڑے کہیں نہ کسی بدمزاج سے
ہر وقت دیکھتے ہیں مزاج آشنا مزاج
کل اُن کا سامنا جو ہوا خیر ہوگئی
بدلی ہوئی نگاہ تھی بدلا ہوا مزاج
اُن کو بغیر چھیڑ کئے چین ہی نہیں
کتنی شریر طبع ہے کیا چلبلا مزاج
سچ ہے خدا کی دین میں*کیا دخل ہوسکے
اک داغ کا مزاج ہے اک آپ کا مزاج
deekh ker teri sanvali soorat yousaf bhi kahy
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
دیکھ کر سانولی صورت تری یوسف بھی کہے
چَٹ پَٹا حُسن نمک دار سلونا کیا ہے
چار باتیں بھی کبھی آپ نے گھل مل کے نہ کیں
انہیں باتوں کا ہے رونا مجھے رونا کیا ہے
تیغ کھینچے ہوئے وہ ترک پھر اس پر یہ غضب
ہم تڑی دیتے ہیں بس آپ سے ہونا کیا ہے
تم پہ مر جائیں گے اس آس پہ ہم جیتے ہیں
زندگی شرط ہے تو جان کا کھونا کیا ہے
چمپئی رنگ پھر اس رنگ میں بجلی کی چمک
مات کندن ہے ترے رنگ سے سونا کیا ہے
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
دیکھ کر سانولی صورت تری یوسف بھی کہے
چَٹ پَٹا حُسن نمک دار سلونا کیا ہے
چار باتیں بھی کبھی آپ نے گھل مل کے نہ کیں
انہیں باتوں کا ہے رونا مجھے رونا کیا ہے
تیغ کھینچے ہوئے وہ ترک پھر اس پر یہ غضب
ہم تڑی دیتے ہیں بس آپ سے ہونا کیا ہے
تم پہ مر جائیں گے اس آس پہ ہم جیتے ہیں
زندگی شرط ہے تو جان کا کھونا کیا ہے
چمپئی رنگ پھر اس رنگ میں بجلی کی چمک
مات کندن ہے ترے رنگ سے سونا کیا ہے
kehtay hain jiss koo hoor woh insan tumhi to ho
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو
مطلب کے کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کے پوچھتی ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو
آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کئے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو
پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اُجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو
اک روز رنگ لائینگی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو
دلدار و دلفریب دل آزار دلستاں
لاکھوں میں ہم کہینگے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو
کرتے ہو داغ دور سے مے خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو
مطلب کے کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کے پوچھتی ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو
آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کئے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو
پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اُجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو
اک روز رنگ لائینگی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو
دلدار و دلفریب دل آزار دلستاں
لاکھوں میں ہم کہینگے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو
کرتے ہو داغ دور سے مے خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو
kahan thy raat koo hum say zara nigah milaiyee
kahaa.N the raat ko hamase zaraa nigaah mile
talaash me.n ho ki jhuThaa ko_ii gavaah mile
ye hai maze kii la.Daa_ii, ye hai maze kaa milaap
ki tujhase aa.Nkh la.Dii ???????????????????? ???
teraa guruur samaayaa hai is qadar dil me.n
nigaah bhii na milaauu.N to baadashaah mile
masal-sal ye hai ki milane se kaun milataa hai
milo to aa.Nkh mile, mile to nigaah mile
talaash me.n ho ki jhuThaa ko_ii gavaah mile
ye hai maze kii la.Daa_ii, ye hai maze kaa milaap
ki tujhase aa.Nkh la.Dii ???????????????????? ???
teraa guruur samaayaa hai is qadar dil me.n
nigaah bhii na milaauu.N to baadashaah mile
masal-sal ye hai ki milane se kaun milataa hai
milo to aa.Nkh mile, mile to nigaah mile
dill gaya tum nay liyaa humm kia kerain
dil gayaa tum ne liyaa ham kyaa kare.n
jaanevaalii chiiz kaa Gam kyaa kare.n
puure ho.nge apane armaa.N kis tarah
shauq behad waqt hai kam kyaa kare.n
baksh de.n pyaar kii gustaaKhiyaa.N
dil hii qabuu me.n nahii.n, ham kyaa kare.n
tu.nd khuu hai kab sune vo dil kii baat
aur bhii baraham ko baraham kyaa kare.n
ek saaGar par hai apanii zi.ndaagii
raftaa raftaa is se bhii kam kyaa kare.n
kar chuke sab apanii-apanii hikamate.n
dam nikalataa hai ai mere hamadam kyaa kare.n
dil ne siikhaa shevaa-e-begaanagii
aise naamuharim ko muharim kyaa kare.n
maamalaa hai aaj husn-o-ishq kaa
dekhiye vo kyaa kare.n ham kyaa kare.n
kah rahe hai.n ahal-e-sifaarish mujhase "Daag"
terii qismat hai burii ham kyaa kare.n
jaanevaalii chiiz kaa Gam kyaa kare.n
puure ho.nge apane armaa.N kis tarah
shauq behad waqt hai kam kyaa kare.n
baksh de.n pyaar kii gustaaKhiyaa.N
dil hii qabuu me.n nahii.n, ham kyaa kare.n
tu.nd khuu hai kab sune vo dil kii baat
aur bhii baraham ko baraham kyaa kare.n
ek saaGar par hai apanii zi.ndaagii
raftaa raftaa is se bhii kam kyaa kare.n
kar chuke sab apanii-apanii hikamate.n
dam nikalataa hai ai mere hamadam kyaa kare.n
dil ne siikhaa shevaa-e-begaanagii
aise naamuharim ko muharim kyaa kare.n
maamalaa hai aaj husn-o-ishq kaa
dekhiye vo kyaa kare.n ham kyaa kare.n
kah rahe hai.n ahal-e-sifaarish mujhase "Daag"
terii qismat hai burii ham kyaa kare.n
dill koo kia hoo gaya khudaa jaane
dil ko kyaa ho gayaa Khudaa jaane
kyo.n hai aisaa udaas kyaa jaane
kah diyaa mai.n ne haal-e-dil apanaa
is ko tum jaano yaa Khudaa jaane
jaanate jaanate hii jaanegaa
mujh me.n kyaa hai abhii wo kyaa jaane
tum na paaoge saadaa dil mujhasaa
jo taGaaful ko bhoi hayaa jaane
kyo.n hai aisaa udaas kyaa jaane
kah diyaa mai.n ne haal-e-dil apanaa
is ko tum jaano yaa Khudaa jaane
jaanate jaanate hii jaanegaa
mujh me.n kyaa hai abhii wo kyaa jaane
tum na paaoge saadaa dil mujhasaa
jo taGaaful ko bhoi hayaa jaane
na dava kahiyee na sazaa kehiyee
نہ روا کہیے، نہ سزا کہیے
کہیے کہیے مجھے بُرا کہیے
پھر نہ رُکیے جو مدعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے
تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے؟
کہنے والوں کو خیر کیا کہیے
وہ بھی سُن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حالِ دل سب سے جا بجا کہیے
انتہا عشق کی خُدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے
صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اُسے دیر آشنا کہیے
آ گئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیے
داغ
khatir say ya lehaaz say mein maan too gaya
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دِل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
اُلٹی شکائتیں ہوئیں، اِحسان تو گیا
دیکھا ہے بُتکدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذِلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دِیا، جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورتِ پروانہ دِل میرا
گو رشک سے جلا، تیرے قربان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا
داغ دہلوی
lutf aram ka nahi milta
زل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
لطف آرام کا نہیں ملتا
آدمی کام کا نہیں ملتا
کیسے حاضر جواب ہو کہ جواب
میرے پیغام کا نہیں ملتا
اُس نے جب شام کا کیا وعدہ
پھر پتہ شام کو نہیں ملتا
جستجو میں بہت ہے وہ کافر
بھید اسلام کا نہیں ملتا
مل گیا میں تمہیں وگرنہ غلام
کوئی بے دام کا نہیں ملتا
چرخ پر جا کے عرض حال کروں
رستہ اس بام کا نہیں ملتا
نہ ملے رنگ رنگ میں جب تک
دل مئے آشام کا نہیں ملتا
ظرف بےمثل ہے دل پرخوں
جوڑا اس جام کا نہیں ملتا
تلخیء رشک کیا گوارا ہو
زہر بھی کام کا نہیں ملتا
داغ کی ضد سے ہے تلاش اُنہیں
کوئی اس نام کا نہیں ملتا
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
لطف آرام کا نہیں ملتا
آدمی کام کا نہیں ملتا
کیسے حاضر جواب ہو کہ جواب
میرے پیغام کا نہیں ملتا
اُس نے جب شام کا کیا وعدہ
پھر پتہ شام کو نہیں ملتا
جستجو میں بہت ہے وہ کافر
بھید اسلام کا نہیں ملتا
مل گیا میں تمہیں وگرنہ غلام
کوئی بے دام کا نہیں ملتا
چرخ پر جا کے عرض حال کروں
رستہ اس بام کا نہیں ملتا
نہ ملے رنگ رنگ میں جب تک
دل مئے آشام کا نہیں ملتا
ظرف بےمثل ہے دل پرخوں
جوڑا اس جام کا نہیں ملتا
تلخیء رشک کیا گوارا ہو
زہر بھی کام کا نہیں ملتا
داغ کی ضد سے ہے تلاش اُنہیں
کوئی اس نام کا نہیں ملتا
tumharay khat mein naya aik salam kiss ka tha
tumhaare Khat me.n nayaa ik salaam kis kaa thaa
na thaa raqiib to aaKhir vo naam kis kaa thaa
vo qatl kar ke har kisii se puuchhate hai.n
ye kaam kis ne kiyaa hai ye kaam kis kaa thaa
vafaa kare.nge nibhaaye.nge baat maane.nge
tumhe.n bhii yaad hai kuchh ye kalaam kis kaa thaa
rahaa na dil me.n vo be-dard aur dard rahaa
muqiim kaun huaa hai maqaam kis kaa thaa
na puuchh-paachh thii kisii kii na aav-bhagat
tumhaarii bazm me.n kal ehatamaam kis kaa thaa
hamaare Khat ke to purze kiye pa.Dhaa bhii nahii.n
sun jo tum ne baa-dil vo payaam kis kaa thaa
i.nhii.n sifaat se hotaa hai aadamii mashahuur
jo lutf aap hii karate to naam kis kaa thaa
guzar gayaa vo zamaanaa kahe.n to kis se kahe.n
Khayaal mere dil ko subah-o-shaam kis kaa thaa
har ek se kahate hai.n kyaa "Daag" bevafaa nikalaa
ye puuchhe in se ko_ii vo Gulaam kis kaa thaa
na thaa raqiib to aaKhir vo naam kis kaa thaa
vo qatl kar ke har kisii se puuchhate hai.n
ye kaam kis ne kiyaa hai ye kaam kis kaa thaa
vafaa kare.nge nibhaaye.nge baat maane.nge
tumhe.n bhii yaad hai kuchh ye kalaam kis kaa thaa
rahaa na dil me.n vo be-dard aur dard rahaa
muqiim kaun huaa hai maqaam kis kaa thaa
na puuchh-paachh thii kisii kii na aav-bhagat
tumhaarii bazm me.n kal ehatamaam kis kaa thaa
hamaare Khat ke to purze kiye pa.Dhaa bhii nahii.n
sun jo tum ne baa-dil vo payaam kis kaa thaa
i.nhii.n sifaat se hotaa hai aadamii mashahuur
jo lutf aap hii karate to naam kis kaa thaa
guzar gayaa vo zamaanaa kahe.n to kis se kahe.n
Khayaal mere dil ko subah-o-shaam kis kaa thaa
har ek se kahate hai.n kyaa "Daag" bevafaa nikalaa
ye puuchhe in se ko_ii vo Gulaam kis kaa thaa
wadi e ganga mein aik raat
وادئ گنگا ميں ايک رات
کرتے ہيں مسافر کو محبت سے اشارے
اے وادي گنگا ترے شاداب نظارے
يہ بکھرے ہوئے پھول يہ بکھرے ہوئے تارے
خوشبو سے مہکتے ہوئے دريا کے کنارے
يہ چاندني رات اور يہ پر خواب فضائيں
اک موج طرب کي طرح بے تاب فضائيں
سبزے کا ہجوم اور يہ شاداب فضائيں
مہکے ہوئے نطارے ہيں بہکے ہوئے تارے
يہ تارے ہيں کہ نور کے مے خانے ہيں آباد
معصوم و حسيں حوروں کے کاشانے ہيں آباد
مستانہ ہواؤں پہ پري خانے ہيں آباد
يادامن افلاک ميں بے تاب شرارے
مہتاب ہے يا نور کي خوابيدہ پري ہے
الماس کي صورت ہے کہ مندر ميں دہري ہے
نيندوں ميں ہيں کھوئي ہوئي بے دار ہوائيں
گل زار ميں گل ريز گہر بار ہوائيں
يا نور ميں ڈوبي ہوئي سرشارہوائيں
يا بال فشاں مستي و نکہت کے نظارے
صحرا ہيں کہ خوابيدہ نظاروں کے شبستاں
دامن ميں لئے چاندستاروں کے شبستاں
فردوس کي پر کيف بہاروں کے شبستاں
شاعر کو تمنا ہے يہيں رات گزارے
کرتے ہيں مسافر کو محبت سے اشارے
اے وادي گنگا ترے شاداب نظارے
يہ بکھرے ہوئے پھول يہ بکھرے ہوئے تارے
خوشبو سے مہکتے ہوئے دريا کے کنارے
يہ چاندني رات اور يہ پر خواب فضائيں
اک موج طرب کي طرح بے تاب فضائيں
سبزے کا ہجوم اور يہ شاداب فضائيں
مہکے ہوئے نطارے ہيں بہکے ہوئے تارے
يہ تارے ہيں کہ نور کے مے خانے ہيں آباد
معصوم و حسيں حوروں کے کاشانے ہيں آباد
مستانہ ہواؤں پہ پري خانے ہيں آباد
يادامن افلاک ميں بے تاب شرارے
مہتاب ہے يا نور کي خوابيدہ پري ہے
الماس کي صورت ہے کہ مندر ميں دہري ہے
نيندوں ميں ہيں کھوئي ہوئي بے دار ہوائيں
گل زار ميں گل ريز گہر بار ہوائيں
يا نور ميں ڈوبي ہوئي سرشارہوائيں
يا بال فشاں مستي و نکہت کے نظارے
صحرا ہيں کہ خوابيدہ نظاروں کے شبستاں
دامن ميں لئے چاندستاروں کے شبستاں
فردوس کي پر کيف بہاروں کے شبستاں
شاعر کو تمنا ہے يہيں رات گزارے
woh kehtay hain ranjish ki batyin bhula dayin
وہ کہتے ہيں رنجش کي باتيں بھُلا ديں
محبت کريں، خوش رہيں، مسکراديں
غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں
جواني ھوگر جاوداني تو يا رب
تري سادہ دنيا کو جنت بناديں
شب وصل کي بےخودي چھارہي ہے
کہوتو ستاروں کي شمعيں بجھاديں
بہاريں سمٹ آئيں کِھل جائيں کلياں
جو ہم تم چمن ميں کبھي مسکراديں
وہ آئيں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پر کلياں بچھاديں
بناتا ھے منہ تلخئ مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا ديں
تم افسانہ قيس کيا پوچھتے ہو
آؤ ہم تم کوليليٰ بنا ديں
انہيں اپني صورت پہ يوں کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا ديں
محبت کريں، خوش رہيں، مسکراديں
غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں
جواني ھوگر جاوداني تو يا رب
تري سادہ دنيا کو جنت بناديں
شب وصل کي بےخودي چھارہي ہے
کہوتو ستاروں کي شمعيں بجھاديں
بہاريں سمٹ آئيں کِھل جائيں کلياں
جو ہم تم چمن ميں کبھي مسکراديں
وہ آئيں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پر کلياں بچھاديں
بناتا ھے منہ تلخئ مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا ديں
تم افسانہ قيس کيا پوچھتے ہو
آؤ ہم تم کوليليٰ بنا ديں
انہيں اپني صورت پہ يوں کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا ديں
qara cheen liya hy beqara choor gay
قرار چھين ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے يادِ بہار چھوڑ گئے
ہماري چشم حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وھ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتني مدت سے
اسي کو آج وہ بيگانہ وار چھوڑ گئے
رگوں میں اک طبش درد کار جاگ اٹھي
دلوں ميں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے
ہوائے شام سے آنے لگي صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گسار چھوڑ گئے
نشاطِ محفل ليل و نہار لوٹ ليا
نصيب ميں غمِ ليل و نہار چھوڑ گئے
گھٹائيں چھائي ہيں ساون ہے مينہ برستا ہے
وہ کس سمے ميں ہميں اشکبار چھوڑ گئے
دل حزيں ہے اب اور عہد رفتہ کا ماتم
چمن کے سينے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامن اميدِ دل کے ہاتھوں سے
سواد ياس ميں ماتم گسار چھوڑ گئے
نہ آيا رحم ميرے آنسوؤں کي مِنت پر
کيا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
اميد و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
اميد و شوق کہاں اک مزار چھوڑ گئے
تمام عمر ہے اب اور فراق کي راتيں
يہ نقش گيسوئے مشکيں بہار چھوڑ گئے
ترس رہے ہيں مسرت کو عشق کے ارماں
ہميں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے
اميد خستہ، سکوں مضطرب ، خوشي بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہ درد کي غرض حزيں قبول نہ کي
ہميں وہ غمزدہ و دلفگار چھوڑ گئے
کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھي مليں نہ مليں
نظر ميں ايک ابدي انتظار چھوڑ گئے
ہماري ياد بھُلا کر وہ چل ديے اختر
اور اپني ياد ، فقط يادگار چھوڑ گئے
shab ko pehlu mein jo woh
شب کو پہلو میں جو وہ ماہِ سیہ پوش آیا
ہوش کو اتنی خبر ہے کہ نہ پھر ہوش آیا
ان کا زانو تھا مرا سر مرا دل ہاتھ ان کا
بے خودی تیرا برا ہو ، مجھے کب ہوش آیا
دو گھڑی ہو بھی گئی گر غمِ فردا سے نجات
چٹکیاں لیتا ہوا دل میں غمِ دوش آیا
na bhool ker bhi tamanay rung o boo kertay
نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے
چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے
مسرت! آہ تو بستی ہے کن ستاروں میں؟
زمیں پہ عمر ہوئی تیری جستجو کرتے
ایاغِ بادہ میں آکر وہ خود چھلک پڑتا
گر اُس کے رند ذرا اور ہاؤ ہو کرتے
پکار اٹھتا وہ آکر دلوں کی دھڑکن میں
ہم اپنے سینوں میں گر اس کی جستجو کرتے
جنونِ عشق کی تاثیر تو یہ تھی اختر
کہ ہم نہیں وہ خود اظہارِ آرزو کرتے
چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے
مسرت! آہ تو بستی ہے کن ستاروں میں؟
زمیں پہ عمر ہوئی تیری جستجو کرتے
ایاغِ بادہ میں آکر وہ خود چھلک پڑتا
گر اُس کے رند ذرا اور ہاؤ ہو کرتے
پکار اٹھتا وہ آکر دلوں کی دھڑکن میں
ہم اپنے سینوں میں گر اس کی جستجو کرتے
جنونِ عشق کی تاثیر تو یہ تھی اختر
کہ ہم نہیں وہ خود اظہارِ آرزو کرتے
mujhy apni pasti ki sharam hy teri rufatooun ka khayal hy
مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوقِ وصال ہے
اس ادا سے کون یہ جلوہ گر سر بزمِ حسنِ خیال ہے
جو نفس ہے مستِ بہار ہے جو نظر ہے غرقِ جمال ہے
میں بتاؤں واعظِ خوشنما ، ہے جہان و خلد میں فرق کیا
یہ اگر فریبِ خیال ہے وہ فریبِ حسنِ خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوقِ وصال ہے
اس ادا سے کون یہ جلوہ گر سر بزمِ حسنِ خیال ہے
جو نفس ہے مستِ بہار ہے جو نظر ہے غرقِ جمال ہے
میں بتاؤں واعظِ خوشنما ، ہے جہان و خلد میں فرق کیا
یہ اگر فریبِ خیال ہے وہ فریبِ حسنِ خیال ہے
kaun aya yeah meray pehlu mein yeah khwab aloodaa
کون آیا مرے پہلو میں یہ خواب آلودہ
زلف برہم کئے ، با چشم حجاب آلودہ
کس نے بستر پہ بٹھایا یہ مجھے شرما کر
کس کے ہاتھوں میں ہے یہ لرزش یہ حجاب آلودہ
کس کو شکوہ ہے مرے عشق سے رسوائی کا
کس کا لہجہ ہے بایں لطف عتاب آلودہ
زلف برہم کئے ، با چشم حجاب آلودہ
کس نے بستر پہ بٹھایا یہ مجھے شرما کر
کس کے ہاتھوں میں ہے یہ لرزش یہ حجاب آلودہ
کس کو شکوہ ہے مرے عشق سے رسوائی کا
کس کا لہجہ ہے بایں لطف عتاب آلودہ
ishq ka mausam ghum ki havain
عشق کا موسم غم کی ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
دل میں تمنا لب دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
صحنِ چمن اور بادہ پرستی رات کا منظر عالمِ ہستی
قدموں پہ ساغر سر پہ گھٹائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ایک گلی سے روز گزرنا گرچہ کسی سے بات نہ کرنا
سینے میں دھڑکن منھ پر ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
گھر پہ وہ اک مہ پارہ کا آنا بات نہ کرنا آنکھ چرانا
دل کو خلش تنہا کبھی پائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ishq kay jiss kay deen mein sabr o sakoon haram hy
عشق کے جس کے دین میں صبر و سکوں حرام ہے
ایک نظر کا کام ہے ایک اثر کا نام ہے
شان میں مے کی زاہدا ، اس کے سوا میں کیا کہوں
میرے لئے حلال ہے تیرے لئے حرام ہے
پائے طلب کے واسطے کوئی نئی زمیں بنا
وادیء مہر و ماہ تو لغزشِ نیم گام ہے
ایک نظر کا کام ہے ایک اثر کا نام ہے
شان میں مے کی زاہدا ، اس کے سوا میں کیا کہوں
میرے لئے حلال ہے تیرے لئے حرام ہے
پائے طلب کے واسطے کوئی نئی زمیں بنا
وادیء مہر و ماہ تو لغزشِ نیم گام ہے
deekh sakta hy bhala kaun yeah pyary ansoo
دیکھ سکتا ہے بھلا کون یہ پیارے آنسو
میری آنکھوں میں نہ آ جائیں تمہارے آنسو
صبح دم دیکھ نہ لے کوئی یہ بھیگا آنچل
میری چغلی کہیں کھا دیں نہ تمہارے آنسو
ہجر ابھی دور ہے میں پاس ہوں اے جانِ جہاں
کیوں ہوئے جاتے ہیں بے چین تمہارے آنسو
bhala kyun ker na hooun ratooun ko nindain beqraar us ki
بھلا کیونکر نہ ہوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زلفِ مشکبار اس کی
جفائے ناز کی میں نے شکایت ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اس کی
arzoo wasal ki rukhti hy perishaan kia kia
آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ مرے دل میں ہیں ارماں کیا کیا
اب وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ ملاقاتیں ہیں
محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا
دشتِ غربت میں رلاتے ہیں ہمیں یاد آکر
اے وطن! تیرے گل و سنبل و ریحاں کیا کیا
aay dil woh asqi k fasany kidhar gay
اے دل وہ عاشقي کے فسانے کدہر گئے؟
وھ عمر کيا ہوئي ، وہ زمانے کدہر گئے؟
ويراں ہيں صحن و باغ، بہاروں کو کيا ہوا
وہ بلبليں کہاں وہ ترانے کدہر گئے؟
تھے وہ بھي کيا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
وہ دن کہاں ہيں اب وہ زمانے کدہر گئے؟
ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کيا ہوا
ليلائيں ہيں خموش دوانے کدہر گئے؟
صحراء و کوہ سے نہيں اٹھي صدائے درد
وہ قيس و کوہکن کے ٹھکانے کدہر گئے؟
اجڑے پڑے ہيں دشت غزالوں پہ کيا بني
سوتے ہيں کوھسار دوانے کدہر گئے؟
وہ ہجر ميں وصالت کي اميد کي اميد کيا ہوئي
وہ رنج ميں خوشي کے بہانے کدہر گئے؟
غيروں سے تو اميد وفا پہلے نہ تھا
رونا يہ ہے کہ اپنے يگانے کدہر گئے؟
دن رات ميکدے ميں گزرتي تھي زندگي
اختر وہ بے خودي کے زمانے کدہر گئے
وھ عمر کيا ہوئي ، وہ زمانے کدہر گئے؟
ويراں ہيں صحن و باغ، بہاروں کو کيا ہوا
وہ بلبليں کہاں وہ ترانے کدہر گئے؟
تھے وہ بھي کيا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
وہ دن کہاں ہيں اب وہ زمانے کدہر گئے؟
ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کيا ہوا
ليلائيں ہيں خموش دوانے کدہر گئے؟
صحراء و کوہ سے نہيں اٹھي صدائے درد
وہ قيس و کوہکن کے ٹھکانے کدہر گئے؟
اجڑے پڑے ہيں دشت غزالوں پہ کيا بني
سوتے ہيں کوھسار دوانے کدہر گئے؟
وہ ہجر ميں وصالت کي اميد کي اميد کيا ہوئي
وہ رنج ميں خوشي کے بہانے کدہر گئے؟
غيروں سے تو اميد وفا پہلے نہ تھا
رونا يہ ہے کہ اپنے يگانے کدہر گئے؟
دن رات ميکدے ميں گزرتي تھي زندگي
اختر وہ بے خودي کے زمانے کدہر گئے
aay ishq humain berbad na ker
Ay ishq humein barbaad na kar
Ay ishq na chaiR aa aa ke humein, hum bhoole hu'on ko yaad na kar
Pehle hee bahut na'shaad hain hum, tu aur humein na'shaad na kar
Qismat ka sitam hee kam nahii kuch, ye taaza sitam eejaad na kar
Yoon zulm na kar be'daad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Jis din se mile hain dono ka, sub chain gaya aaraam gaya
Chehron se bahaar-e-subah gaii, aankhon se farogh-e-shaam gaya
Haathon se khushii ka jaam chuta, honton se hansii ka naam gaya
Gamgeen na bana na'shaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Raaton ko uth uth rote hain, ro ro ke duaaein karte hain
Aankhon ma tasavvur, dil ma Khalish, sar dhunte hain, aahein bharte hain
Ay ishq ye kaisa rog laga, jeete hain na zaalim marte hain
Ye zulm to ai jallaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Ye rog lagaa hai jab se humein, ranjeeda hoon ma beemaar hai wo
Har waqt tapish, har waqt khalish, be'khwaab hoon ma be'daar ha wo
Jeene se idhar be'zaar hoon ma, marne pe udhar tayyaar hai wo
Aur zabt kahe fariyaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Jis din se bandha hai dheyaan tera, ghabraaye huye se rehte hain
Har waqt tasavvur kar kar ke, sharmaaye huye se rehte hain
Kumhlaaye huye phoolon ki tarah kumhlaaye huye se rehte hain
Paamaal na kar, barbaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Be'dard zara insaaf to kar, is umr ma aur maghmoom hai wo
Phoolon kii tarah naazuk hai abhi, taaron kii tarah masoom hai wo
Ye husn sitam ye runj ghazab, majboor hoon ma mazloom hai wo
Mazloom pe yoon be'daad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Ay ishq Khudaa'ra daikh kahiin, wo shokh haseen bad'naam na ho
Wo maah-e-laqa badanaam na ho, wo zohra jabeen bad'naam na ho
Naamoos ka us ko paas rahe, wo parda nashiin bad'naam na ho
Us parda nasheen ko yaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Umeed kii jhoothii jannat ke, reh reh ke na dikhla khwaab humein
Aainda ke farzii ishrat ke, waade se na kar be'taab humein
Kehta hai zamaana jis ko khushi, aatii hai nazar kaam'yaab humein
ChoR aisii khushii ko yaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Kya samjhe the aur tu kya nikla, ye soch ke hee hairaan hau hum
Hai pehle pehal ka tajruba aur kam'umar hain hum, anjaan hain hum
Ay ishq khuda'ra rehm o karam, ma'soom hain hum, nadaan hain hum
Nadaan hain hum, na'shaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Wo raaz hai ye gham aah jise, paa jaaye koii to khair nahii
Aankhon se jab aansoo bahte hain, aa jaaye koii to khair nahii
Zaalim hai ye dunya dil ko yahaan, bhaa jaaye koii to khair nahii
Hai zulm magar faryaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Do din hee ma ehad-e-tiflii ke, masoom zamaane bhool gaye
Aankhon se wo khushiyaan mit see gaein, lab ke wo taraane bhool gaye
Un paak behishtii khwaabon ke, dil'chasp fasaane bhool gaye
Un khwaabon se yoon azaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Us jaan e haya ka bus nahi kuch, be'bus hai paraaye bus ma hai
Be'dard dilon ko kya hai khabar, jo pyaar yahan aapus ma hai
Hai be'busi zeh'r aur pyaar hai rus, ye zeh'r chupa is rus ma hai
Kehti hai haya faryaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Aankhon ko ye kya aazaar hua, har jazb-e-nihaan par ro daina
Aahang-e-tarab pe jhuk jaana, aawaaz-e-fughaan par ro daina
Barbat kii sada par ro daina, mutrib ke bayaan par ro daina
Ehsaas ko ghum bunyaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Har dam abdi raahat ka samaan dikhla ke humein dil'geer na kar
Lillah hubaab e aab e rawaan par naqsh e baqaa tehreer na kar
Maayoosi ke ramte baadal par umeed ke ghar ta'meer na kar
Ta'meer na kar, aabaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Jee chaahata hai ik doosre ko, yoon aath pehar hum yaad karein
Aankhon ma basaaein khwaabon ko, aur dil ma khayaal aabaad karein
Khilwat ma bhii ho jalwat ka saamaan, wehdat ko duii se shaad karein
Ye aarzooein eejaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Dunya ka tamaasha daikh liya, ghamgeen sii hai be'taab sii hai
Umeed yahaan ik weham sii hai, taskeen yahaan ik khwaab sii hai
Dunya ma khushii ka naam nahii, dunya ma khushii naa'yaab sii hai
Dunya ma khushii ko yaad na kar
Ay ishq humein barbaad na kar
Akhtar Sheerani
aay ishq kahin lay chull
اے عشق کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کِھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ جبر کدہ، آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آپس میں چَھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اختر شیرانی
aay ishq humain berbad na ker....by akhter sherani
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہارِ صبح گئی، آنکھوں سے فروغِ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چُھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دُھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
اے عشق، یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلِش، بے خواب ہوں میں، بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ اُدھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کمہلائے ہوئے پھولوں کی طرح کمہلائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
بے درد، ذرا انصاف تو کر، اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی، تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن، ستم، یہ رنج، غضب، مجبور ہوں میں، مظلوم ہے وہ
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق خدارا دیکھ کہیں، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دِکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بے تاب ہمیں
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
کیا سمجھے تھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
اے عشق، خدارا رحم و کرم، معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آ جائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دو دن ہی میں عہدِ طفلی کے، معصوم زمانے بُھول گئے
آنکھوں سےوہ خوشیاں مِٹ سی گئیں، لب کو وہ ترانے بُھول گئے
ان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بُھول گئے
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اس جانِ حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے، بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا، ہر جذبِ نہاں پر رو دینا
آہنگِ طرب پر جُھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت کا سماں دِکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ، حبابِ آبِ رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جی چاہتا ہے اِک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو اور دل میں خیال آباد کریں
خِلوت میں بھی ہوجلوت کا سماں، وحدت کو دوئی سےشاد کریں
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے، بے تاب سی ہے
امید یہاں اِک وہم سی ہے، تسکین یہاں اِک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں، دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اختر شیرانی
Monday, 30 January 2012
toot jay na bharam hoont hilaoun kesay
ٹُوٹ جائے نہ بھرم، ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سُناؤں کیسے
خُشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چُھپاؤں کیسے
تیری صُورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے
تُو ہی بتلا میری یادوں کو بُھلانے والے
میں تیری یاد کو اس دل سے بُھلاؤں کیسے
پُھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی دیتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے
آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیم
اتنا نازک ہو تعلق تو نِبھاؤں کیسے
وہ رُلاتا ہے، رُلائے مجھے جی بھر کے عدیم
میری آنکھیں ہیں وہ، میں اس کو رُلاؤں کیسے
عدیم ہاشمی
bara veeran mausam hy kabhi milnay chullay aao
بڑا ویران موسم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
ہر اِک جانب تیرا غم ہے، کبھی ملنے چلے آؤ
ہمارا دل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
میرے ہمراہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
اندھیری رات کی گہری خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لَو بھی مدھم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
تمہارے رُوٹھ کے جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدر ہم سے برہم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
ہواؤں اور پُھولوں کی نئی خُوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے، کبھی مِلنے چلے آؤ
عدیم ہاشمی
pathar hy teray haath mein ya koi phool hy
پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پُھول ہے
جب تُو قبُول ہے،تیرا سب کچھ قبُول ہے
پھر تُو نے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھُول ہے
تُو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبُول ہے
تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے
لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیم
جو مانتا نہیں ، اُسے کہنا فضُول ہے
یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبُول ہے
آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیم
جانے زیاں ہے یہ کہ خُوشی کا حصُول ہے
عدیم ہاشمی
aa kay deekhoo too kabhi meri veerani mein
آ کے دیکھو تو کبھی تُم میری ویرانی میں
کتنے سامان ہیں اس بے سر و سامانی میں
آج بھی دیکھ لیا اُس نے کہ میں زندہ ہوں
چھوڑ آیا ہوں اُسے آج بھی حیرانی میں
رات پھر، تا بہ سحر شاخِ اُفق خالی تھی
چاند پھر ڈُوب گیا تیری پیشانی میں
ساتھ دینا ہے تو دے، چھوڑ کے جانا ہے تو جا
تُو اضافہ تو نہ کر میری پریشانی میں
آسمانوں کی طرف جیسے اُلٹ جائیں مکان
عکس ایسے ہی نظر آئے مجھے پانی میں
یُوں تو بِچھنے کو بِچھی چادرِ سیلاب مگر
لہر کچھ اور بھی عُریاں ہوئی طغیانی میں
خلعتِ گرد اُتاری تو مقابل میں تھا
آئینہ ڈُوب گیا پردۂ حیرانی میں
دُھوپ نکلے گی تو کُہسار ہی پگھلیں گے عدیم
برف جتنی تھی وہ سب بہہ گئی طُغیانی میں
جی میں جادُو ہی جگاتی چلی جاتی ہے عدیم
جانے کیا شے ہے نہاں صُورتِ انسانی میں
عدیم ہاشمی
jhoomti tehni per uska humnava hoo jaoun mein
جُھومتی ٹہنی پر اُس کا ہمنوا ہو جاؤں میں
وہ اگر ہے پُھول تو بادِ صبا ہو جاؤں میں
اُس کے چہرے پر بکھیروں اپنی کرنیں رات بھر
اُس کے آنگن میں کوئی جلتا دیا ہو جاؤں میں
ہر کسی کا ایک سا کردار تو ہوتا نہیں
بیوفا ہے وہ تو کیسے بیوفا ہو جاؤں میں
وادیوں میں جھومتی گاتی گھٹا ہو جائے وہ
لہلہاتے کھیت کی تازہ ہوا ہو جاؤں میں
اِنکسار اِک میرا اخلاقی فریضہ ہے عدیم
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے گردِ پا ہو جاؤں میں
وہ پُجارن بن کے کیا گُزری پہاڑوں سے عدیم
ہر کوئی پتھر پُکارا، دیوتا ہو جاؤں میں
عدیم ہاشمی
joo diya tu nay humain woh soorat e zar rukh liya
جو دیا تُو نے ہمیں وہ صُورتِ زر رکھ لیا
تُو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر رکھ لیا
سِسکیوں نے چار سُو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اُس کی گود میں سر رکھ لیا
گُھٹ گیا تہذیب کے گُنبد میں ہر خواہش کا دَم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دُھول
اپنی آنکھوں کے لیے اُس نے سمندر رکھ لیا
درز تک سے اب نہ پُھوٹے گی تمنا کی پُھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا
وہ جو اُڑ کر جا چکا ہے دُور میرے ہاتھ سے
اُس کی اِک بچھڑی نشانی، طاق میں پر رکھ لیا
دِید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدیم
ہم نے آنکھوں میں تیرے جانے کا منظر رکھ لیا
پھینک دیں گلیاں برونِ صحن سب اُس نے عدیم
گھر کہ جو مانگا تھا میں نے، وہ پسِ در رکھ لیا
عدیم ہاشمی
bus koi aisi kami saray safar mein reh gayi
بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر راہگذر میں رہ گئی
گُونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اُس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی
آ رہی ہے اب بھی دروازے سے اُن ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی
اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس ذرا سی برف ہر سُوکھے شجر میں رہ گئی
رات دریا میں پھر اِک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی
رات بھر ہوتا رہا ہے کِن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی
لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدیم
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی
دل کِھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیم
جانے کیا شے اُس کی گلیوں کے سفر میں رہ گئی
عدیم ہاشمی
heeran hooun zindagi ki anookhi uran per
حیراں ہوں زندگی کی انوکھی اُڑان پر
پاؤں زمیں پر ہیں ، مزاج آسمان پر
آتا نہیں یقین کسی کی زبان پر
بادل کا ہو رہا ہے گُماں بادبان پر
کِرنوں کے تیر چلنے لگے ہیں جہان پر
بیٹھا ہوا ہے کون فلک کی مچان پر
یہ زخم تو ملا تھا کسی اور سے مجھے
کیوں شکل تیری بننے لگی ہے نشان پر
اتنے ستم اُٹھا کے تُو زندہ ہے کس طرح
کتنا یقیں کروں میں تری داستان پر
تصویر اس کی میں نے سجانے کی بُھول کی
سارا جہان ٹُوٹ پڑا ہے دُکان پر
چھوٹا سا اِک چراغ بُجھانے کے واسطے
ٹھہری رہی ہے رات مرے سائبان پر
گھر سے نکل رہا ہے کوئی اور ہی عدیم
تختی لگی ہوئی ہے کسی کی مکان پر
عدیم ہاشمی
nazrain milli to pyar ka izhar ker gaya
نظریں ملیں تو پیار کا اظہار کر گیا
بولا تو بات بات سے انکار کر گیا
آنکھوں نے خشت خشت چُنی رات کی فصیل
خُورشیدِ صبح پھر اسے مسمار کر گیا
جتنا اُڑا ہوں، اُتنا فلک بھی ہوا بلند
کون اس قفس میں مجھ کو گرفتار کر گیا
بن بن کے پانیوں کے بھنور ٹُوٹتے گئے
میں ڈُوبتا ہوا بھی ندی پار کر گیا
ورنہ یہ بوجھ کون اُٹھاتا تمام عمر
اچھا ہوا کہ پہلے وہی وار کر گیا
میں لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک بھی گیا عدیم
وہ پُھول دے کے بات کا اظہار کر گیا
عدیم ہاشمی
ur ker kabootar aik sar e baam aa gaya
اُڑ کر کبوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا
میں گِن رہا تھا آج پُرانی مُحبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا
رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چُھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا مجھے آرام آ گیا
احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا
وہ اِک نظر عدیم جو بیمار کر گئی
اُس اِک نظر ہی سے مجھے آرام آ گیا
عدیم ہاشمی
tumharay wahan say yahan atay atay
تمہارے وہاں سے یہاں آتے آتے
بہار آ گئی ہے خزاں آتے آتے
قدم دو قدم کا تو رستہ ہے سارا
کہاں کھو گئے ہو یہاں آتے آتے
کوئی شوق، کوئی تمنا تھی اس کو
سُنی راہ میں داستاں آتے آتے
تری صورتیں، تیرے سائے فلک پر
یہ کیا بن گئیں بدلیاں آتے آتے
بھٹکنے کے دن ہیں، بھٹکنے کی راتیں
کہیں کھو نہ جانا، یہاں آتے آتے
یہ رنگت، یہ حالت، یہ چہرہ، یہ مہرہ
یہ کیا کر لیا مہرباں آتے آتے
تعاقب عدیم اس کا کر لے نہ کوئی
مٹاتا گیا وہ نشاں آتے آتے
بلایا تھا دو چار یاروں کو میں نے
عدیم آ گیا اِک جہاں آتے آتے
عدیم ہاشمی
jalta reha hooun raat ki tapti chatan per
جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر
سُورج تھا جیسے، چاند نہ تھا آسمان پر
اِک روگ ہے کہ جاں کو لگا ہے اُڑان کا
ٹُوٹا ہوا پڑا ہوں پروں کی دُکان پر
میں راستوں میں اس کا لگاؤں کہاں سراغ
سو سو قدم ہیں، ایک قدم کے نشان پر
بادل کو چُومتی رہیں پُختہ عمارتیں
بجلی گِری تو شہر کے کچے مکان پر
اُس تند خُو کو راہ میں ٹھہرا لیا ہے کیا
دریا عدیم روک لیا ہے ڈھلان پر
عدیم ہاشمی
guzray huy taveel zamany k baad bhi....by adeem hashmi
گُزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دِل میں رہا وہ چھوڑ کر جانے کے بعد بھی
پہلُو میں رہ کے دِل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اُس کو یاد، بُھلانے کے بعد بھی
گو تُو یہاں نہیں ہے، مگر تُو یہیں ہے
تیرا ہی ذِکر ہے تیرے جانے کے بعد بھی
لگتا ہے کُچھ کہا ہی نہیں ہے اُسے عدیم
دِل کا تمام حال، سُنانے کے بعد بھی
عدیم ہاشمی
tamam umer ki tanhyi ki saza dy ker
تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا میرا منصف بھی فیصلہ دے کر
میرے خدا ، یہ برہنہ لباس پوش ہیں کون
عذاب کیا یہ دیا مجھ کو چشم وا دے کر
میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
اسے سکوں تو ملا مجھ کو بد دعا دے کر
کیا پھر اس نے وہی جو خود اس نے سوچا تھا
برا تو میں بھی بنا اس کو مشورہ دے کر
میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا میری آنکھوں کو ر تجگا دے کر
وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کے لیے
چلا گیا مجھے یادوں کا سلسلہ دے کر
جو وا کیا بھی دریچہ تو آج موسم نے
پہاڑ ڈھانپ دیا ابر کی ردا دے کر
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
چٹخ چٹخ کے جلی شاخ شاخ جنگل کی
بہت سرو ر ملا آگ کو ہوا دے کر
پھر اس کے بعد پہاڑ اس کو خود پکاریں گے
تو لوٹ آ ، اسے وادی میں اک صدا دے کر
ستون ریگ نہ ٹھہرا عدؔیم چھت کے تلے
میں ڈھے گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر
تڑپ اٹھا میرا منصف بھی فیصلہ دے کر
میرے خدا ، یہ برہنہ لباس پوش ہیں کون
عذاب کیا یہ دیا مجھ کو چشم وا دے کر
میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
اسے سکوں تو ملا مجھ کو بد دعا دے کر
کیا پھر اس نے وہی جو خود اس نے سوچا تھا
برا تو میں بھی بنا اس کو مشورہ دے کر
میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا میری آنکھوں کو ر تجگا دے کر
وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کے لیے
چلا گیا مجھے یادوں کا سلسلہ دے کر
جو وا کیا بھی دریچہ تو آج موسم نے
پہاڑ ڈھانپ دیا ابر کی ردا دے کر
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
چٹخ چٹخ کے جلی شاخ شاخ جنگل کی
بہت سرو ر ملا آگ کو ہوا دے کر
پھر اس کے بعد پہاڑ اس کو خود پکاریں گے
تو لوٹ آ ، اسے وادی میں اک صدا دے کر
ستون ریگ نہ ٹھہرا عدؔیم چھت کے تلے
میں ڈھے گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر
jub bayan kero gay to hum bayan mein niklain gay
جب بیاں کرو گے تم، ہم بیاں میں نکلیں گے
ہم ہی داستاں بن کر، داستاں میں نکلیں گے
عشق ہو، محبت ہو ، پیار ہو کہ چاہت ہو
ہم تو ہر سمندر کے درمیاں میں نکلیں گے
رات کا اندھیرا ہی رات میں نہیں ہوتا
چاند اور ستارے بھی آسماں میں نکلیں گے
بولیاں زمانے کی مختلف تو ہوتی ہیں
لفظ پیار کے لیکن ہر زباں میں نکلیں گے
خاک کا سمندر بھی اک عجب سمندر ہے
اس جہاں میں ڈوبیں گے، اس جہاں میں نکلیں گے
صرف سبز پتے ہی پیڑ پر نہیں ہوتے
کچھ نہ کچھ پرندے بھی آشیاں میں نکلیں گے
قصئہِ سخن کوئی جب عدیم آئے گا
ہم بھی واقعہ بن کر داستاں میں نکلیں گے
ub to ghar aa jao dil k chain
تلاشِ گمشدہ
اب تو گھر آ جاؤ
دل کے چین
تجھے کچھ کیا کہنا ہے
ہم نے مانا
تیرے روٹھ جانے میں تو
سارا دوش ہمارا تھا
لیکن اب تو تیری راہیں
تکتے تکتے عمر ہوئی
وہ بیمار ہے
اور ہر شخص پہ ویرانی کا سایہ
تیری ساری چیزوں سے
اب گرد ہٹانا مشکل ہے
اور یہ عمر بھی
ہجر کے آنسو رونے کو
ناکافی ہے
kyun na hum koo usi ka aaina hoo ker milain
کیوں نہ ہم اس کو اسی کا آئینہ ہو کر ملیں
بے وفا ہے و ہ تو اس کو بے وفا ہو کر ملیں
تلخیوں میں ڈھل نہ جائیں وصل کی اکتاہٹیں
تھک گئے ہو تو چلو پھر سے جدا ہو کر ملیں
پہلی پہلی قربتوں کی پھر اٹھائیں لذتیں
آشنا آ پھر ذرا نا آ شنا ہو کر ملیں
ایک تو ہے سر سے پا تک سراپا انکسار
لوگ و ہ بھی ہیں جو بندوں سے خدا ہو کر ملیں
معذرت بن کر بھی اس کو مل ہی سکتے ہیں عدؔیم
یہ ضروری تو نہیں اس کو سزا ہو کر ملیں
shehr e berbaad mein
شہرِ برباد میں
شہرِ برباد میں
ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
ہمارے دلوں کی اداسی
یونہی بے سبب تو نہ تھی
تم نے سمجھا جو ہوتا کسی آرزو کے شکستہ دریچے کی اجڑی ہوئی
داستاں کو کبھی
ہم کو مدت ہوئی
راستہ راستہ
خار و خس کی طرح
گردشیں کاٹتے
اس سے بڑھ کر بھی ہو گا کوئی خواب صد چاک
ظلمت کا مارا ہوا
کیا دکھوں کی یہ ساری کہانی بھلا خواب ہے؟
ہم تو باز آئے
ایسی کسی خوش گمانی
یا امید سے
خوش گمانی میں ہم تو
اذیت کی ساری فصیلوں کو چھو آئے
صدیوں کی ساری اداسی کو
لمحوں میں ہم نے سمیٹا
مگر
اب بھی وحشت کھڑی ہے
ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
مسافت کے مارے دلوں کے لیے
kia khabar thi pher naya wakt e safar aa jay ga
کیا خبر تھی پھر نیا وقتِ سفر آ جائے گا
میں تو سمجھا تھا سفر کے بعد گھر آ جائے گا
اس غلط فہمی میں تنہا منزلیں طے ہو گئیں
چل پڑوں گا میں تو کوئی ہم سفر آ جائے گا
اتنی بے پروائیوں سے بھولنا ا چھا نہیں
یہ ہنر ہے تو ہمیں بھی یہ ہنر آ جا ئے گا
جب نصیبوں میں نہیں ملنا تو یوں ہو گا عدؔیم
وہ اُدھر جاؤں گا جس دن وہ اِدھر آ جائے گا
اٹھ بدل ہی ڈال کپڑے اور منہ دھو لے عدؔیم
تو نے جب سوچا نہیں، اس دن وہ گھر آ جائے گا
rahat e jaan say to yeah dil ka vabal acha hy
راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا، ترا حال اچھا ہے
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
ترے آنےسے کوئ ہوش رہے یانہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جاۓ کوئ
اسے دے دے کوئ اچھی سی مثال اچھا ہے
دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے
سخت غصہ میں بھی یہ سوچ کے ہنس دیتا ہوں
یہ وہی شخص ہے جو وقت وصال اچھا ہے
آو پھر دل کے سمندر کی طرف لو ٹ چلیں
وہی پانی ، وہی مچھلی ، وہی جال اچھا ہے
چھوڑیۓ اتنی دلیلوں کی ضرورت کیا ہے
ہم ہی گاہک ہیں برے آپ کا مال اچھا ہے
کوئ دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
عدیم ھاشمی
humain uskoo bhoolna tha so hum yeah kaam ker ay
ہمیں اُس کو بھلانا تھا، سو ہم یہ کام کر آئے
کہا اب اُس کی مرضی ہے اِدھر آئے اُدھر آئے
کہا اُس سنگدل کے واسطے کیوں جان دیتے ہو؟
کہا کچھ تو کروں ایسا کہ اُس کی آنکھ بھر آئے
کہا ہر راہ میں کیوں گھر بنانے کی تمنّا ہے؟
کہا وہ جس طرف جائے، اُدھر میرا ہی گھر آئے
کہا تعبیر پوچھی ہے بتاؤ خواب کیا دیکھا؟
کہا گزرا جدھر سے میں اُسی کے بام و در آئے
کہا دیدار کرنے کی تمنّا ہے تو کتنی ہے؟
کہا میں جس طرف دیکھوں وہی مجھ کو نظر آئے
کہا مرنے سے پہلے کون سے منظر کی خواہش ہے؟
کہا آنکھوں کی پُتلی پر ترا چہرہ اُتر آئے
عدیم ہاشمی
akhiri Tis azamane ko ji to chaha tha muskurane ko
akhiri Tis azamane ko
ji to chaha tha muskurane ko
yad itni bhi sakht jan to nahin
ik gharaunda raha hai dahane ko
sangrezon main dhal gaye ansu
log hansate rahe dikhane ko
zaKhm-e-nagma bhi lau to deta hai
ik diya rah gaya jalane ko
jalane vale to jal bujhe akhir
kaun deta Khabar zamane ko
kitne majbur ho gaye honge
ankahi bat munh pe lane ko
khul ke hansana to sab ko ata hai
log tarasate rahe ik bahane ko
reza reza bikhar gaya insan
dil ki viraniyan jatane ko
hasraton ki panahgahon main
kya thikane hain sar chhupane ko
hath kanTon se kar liye zakhmi
phul balon main ik sajane ko
as ki bat ho ki sans 'Ada'
ye Khilaune hain tuT jane ko
ji to chaha tha muskurane ko
yad itni bhi sakht jan to nahin
ik gharaunda raha hai dahane ko
sangrezon main dhal gaye ansu
log hansate rahe dikhane ko
zaKhm-e-nagma bhi lau to deta hai
ik diya rah gaya jalane ko
jalane vale to jal bujhe akhir
kaun deta Khabar zamane ko
kitne majbur ho gaye honge
ankahi bat munh pe lane ko
khul ke hansana to sab ko ata hai
log tarasate rahe ik bahane ko
reza reza bikhar gaya insan
dil ki viraniyan jatane ko
hasraton ki panahgahon main
kya thikane hain sar chhupane ko
hath kanTon se kar liye zakhmi
phul balon main ik sajane ko
as ki bat ho ki sans 'Ada'
ye Khilaune hain tuT jane ko
har ek harf-e-arazu ko dastan kiye hue zamana ho gaya hai un ko mahaman kiye hue
har ek harf-e-arazu ko dastan kiye hue
zamana ho gaya hai un ko mahaman kiye hue
surur-e-aish talKhi-e-hayat ne bhula diya
dil-e-hazin hai bekasi ko hijr-e-jan kiye hue
kali kali ko gulistan kiye hue vo ayenge
vo ayenge kali kali ko gulistan kiye hue
sukun-e-dil ki rahaton ko un se mang loon
sukun-e-dil ki rahaton ko bekaran kiye hue
vo ayenge to ayenge junun-e-shauq ubharane
vo jayenge to jayenge tabahiyan kiye hue
main un ki bhi nigah se chhupa ke un ko dekh loon
k un se bhi hai aj rashk bad_guman kiye hue
zamana ho gaya hai un ko mahaman kiye hue
surur-e-aish talKhi-e-hayat ne bhula diya
dil-e-hazin hai bekasi ko hijr-e-jan kiye hue
kali kali ko gulistan kiye hue vo ayenge
vo ayenge kali kali ko gulistan kiye hue
sukun-e-dil ki rahaton ko un se mang loon
sukun-e-dil ki rahaton ko bekaran kiye hue
vo ayenge to ayenge junun-e-shauq ubharane
vo jayenge to jayenge tabahiyan kiye hue
main un ki bhi nigah se chhupa ke un ko dekh loon
k un se bhi hai aj rashk bad_guman kiye hue
na gubar main na gulab main mujhe dekhana mere dard ki ab-o-tab main mujhe dekhana
na gubar main na gulab main mujhe dekhana
mere dard ki ab-o-tab main mujhe dekhana
kisi waqt sham malal main mujhe sochana
kabhi apane dil ki kitab main mujhe dekhana
kisi dhun main tum bhi jo bastiyon ko tyag do
isi rah-e-KhanaKharab main mujhe dekhana
kisi rat mah-o-najuum se mujhe puchhana
kabhi apani chashm purab main mujhe dekhana
isi dil se ho kar guzar gaye kai karavan
ki hijraton ke zab main mujhe dekhana
main na mil sakun bhi to kya hua ke fasana hun
nai dastan naye bab main mujhe dekhana
mere Khar Khar saval main mujhe Dhundna
mere git main mere Khvab main mujhe dekhana
mere ansuon ne bujhai thi meri tashnagi
isi bargzida sahab main mujhe dekhanaa
wohe ik lamha deed tha ke ruka raha
mere roz-o-shab ke hisab main mujhe dekhana
jo tarap tujhe kisi aine main na mil sake
to phir aine ke javab main mujhe dekhana
mere dard ki ab-o-tab main mujhe dekhana
kisi waqt sham malal main mujhe sochana
kabhi apane dil ki kitab main mujhe dekhana
kisi dhun main tum bhi jo bastiyon ko tyag do
isi rah-e-KhanaKharab main mujhe dekhana
kisi rat mah-o-najuum se mujhe puchhana
kabhi apani chashm purab main mujhe dekhana
isi dil se ho kar guzar gaye kai karavan
ki hijraton ke zab main mujhe dekhana
main na mil sakun bhi to kya hua ke fasana hun
nai dastan naye bab main mujhe dekhana
mere Khar Khar saval main mujhe Dhundna
mere git main mere Khvab main mujhe dekhana
mere ansuon ne bujhai thi meri tashnagi
isi bargzida sahab main mujhe dekhanaa
wohe ik lamha deed tha ke ruka raha
mere roz-o-shab ke hisab main mujhe dekhana
jo tarap tujhe kisi aine main na mil sake
to phir aine ke javab main mujhe dekhana
shayad abhi hai rakh main koi sharar bhi
shayad abhi hai rakh main koi sharar bhi
kyon varna intazar bhi hai iztirar bhi
dhyan a gaya hai marg-e-dil-e-namurad ka
milane ko mil gaya hai sukun bhi qarar bhi
ab dhundhane chale ho musafar ko dosto
hadd-e-nigah tak na raha jab gubar bhi
har astan pe nasiyafarsa hain aj vo
jo kal na kar sake the tera intazar bhi
ik rah ruk gai to thithak kyon gai 'Ada'
abad bastiyan hain paharon ke par bhe
kyon varna intazar bhi hai iztirar bhi
dhyan a gaya hai marg-e-dil-e-namurad ka
milane ko mil gaya hai sukun bhi qarar bhi
ab dhundhane chale ho musafar ko dosto
hadd-e-nigah tak na raha jab gubar bhi
har astan pe nasiyafarsa hain aj vo
jo kal na kar sake the tera intazar bhi
ik rah ruk gai to thithak kyon gai 'Ada'
abad bastiyan hain paharon ke par bhe
kumyab hy wafa to bahany tarash loun
کمیاب ہے وفا تو بہانے تراش لوں
چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لوں
نسبت میری جبیں* کو انہیں پتھروں سے ہے
مشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لوں
اوڑھے رہوں میں جلتی ہوئی دھوپ کی ردا
اور موسموں کے گیت سہانے تراش لوں
شبنم سے رہگزارِ سحر کا پتا کروں
مٹی سے رنگ و بُو کے خزانے تراش لوں
نومید مجھ سے میرا خدا آج بھی نہ ہو
زخموں کے خال و خد سے زمانے تراش لوں
میں جو اسیر ہوں تو خود اپنی نگہ کی ہوں
دل کی خوشی کو لاکھ فسانے تراش لوں
شام و سحر سے دور زمانہ ملے، تو میں
اِس بے قرار جاں کے ٹھکانے تراش لوں
اِک خواب اور فصلِ بہاراں کے نام ادا
آ کر کہا ہے موجِ ہوا نے تراش لوں
ادا جعفری
her shaks perishan sa hairan sa lagay hy
ہرشخص پریشان سا حیراں سا لگے ہے
سائے کو بھی دیکھوں تو گریزاں سا لگے ہے
کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹوٹی
جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے
سونپی گئی ہر دولتِ بیدار اسی کو
یہ دل جو ہمیں آج بھی ناداں سا لگے ہے
آنچل کا جو تھا رنگ وہ پلکوں پہ رچا ہے
صحرا میری آنکھوں کو گلستاں سا لگے ہے
پندار نے ہر بار نیا دیپ جلایا
جو چوٹ بھی کھائی ہے وہ احساں سا لگے ہے
ہر عہد نے لکھی ہے میرے غم کی کہانی
ہر شہر میرے خواب کا عنواں سا لگے ہے
تجھ کو بھی ادؔا جرأتِ گفتار ملی ہے
تو بھی تو مجھے حرفِ پریشاں سا لگے ہے
hoountoun pay kabhi unkay mera naam hi ay
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دلگِیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گِلہ ہم سفروں سے
جِس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کُوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبئہِ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ، اداؔ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشئہِ انجام ہی آئے
ادا جعفری
kehtay hain kay ub hum jesay khata kaar buhut hain
کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطاکار بہت ہیں
اک رسمِ وفا تھی سو وفادار بہت ہیں
لہجے کی کھنک ہو کہ نگاہوں کی صداقت
یوسف کے لئے مصر کے بازار بہت ہیں
کچھ زخم کی رنگ میں گلِ تر کی قریں تھے
کچھ نقش کہ ہیں نقش بہ دیوار، بہت ہیں
راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا
رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں
اِک خواب کا احساں بھی اُٹھائے نہیں اُٹھتا
کیا کہیے کہ آسودۂ آزار بہت ہیں
کیوں اہلِ وفا! زحمتِ بیداد نگاہی
جینے کے لئے اور بھی آزار بہت ہیں
ہر جذبۂ بے تاب کے احکام ہزاروں
ہر لمحۂ بے خواب کے اصرار بہت ہیں
پلکوں تلک آ پہنچے نہ کرنوں کی تمازت
اب تک تو ادا آئینہ بردار بہت ہیں
ادا جعفری
jub dil ki rehguzar per naqsh pa na tha
جب دل کی راہ گزر پر نقشِ پا نہ تھا
جینے کی آرزو تھی مگر حوصلہ نہ تھا
آگے حریم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامان چاک، چاک گلوں کو بہانہ تھا
ورنہ نگاہ و دل میں کوئی فاصلہ نہ تھا
کچھ لوگ شرمسار، خدا جانے کیوں ہوئے؟
ان سے تو روحِ عصر، ہمیں کچھ گِلہ نہ تھا
جلتے رہے خیال، برستی رہی گھٹا
ہاں نازِ آگہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا
سنسان دوپہر ہے، بڑا جی اُداس ہے
کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا
ہر آرزو کا نام نہیں آبروئے جاں
ہر تشنہ لب جمال رخِ کربلا نہ تھا
آندھی میں برگِ گل کی زباں سے ادا ہوا
وہ راز جوکسی سے ابھی تک کہا نہ تھا
ادا جعفری
zikar unka abhi ho bhi na paya hy zaban say
ذکراُن کا ا بھی ہو بھی نہ بایا ہے زباں سے
ذکراُن کا ا بھی ہو بھی نہ بایا ہے زباں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
تحریر کروں اسمِ نبی ہدیہء جاں سے
کرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرہء دل میں
تُم ان کو پکارو تو حضور دل و جاں سے
ہر دور کی اُمید ہیں ہر عہد کا پیغام
پہجان ہے ان کی نہ زمیں سے نہ زماں سے
ادا جعفری
ذکراُن کا ا بھی ہو بھی نہ بایا ہے زباں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
تحریر کروں اسمِ نبی ہدیہء جاں سے
کرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرہء دل میں
تُم ان کو پکارو تو حضور دل و جاں سے
ہر دور کی اُمید ہیں ہر عہد کا پیغام
پہجان ہے ان کی نہ زمیں سے نہ زماں سے
ادا جعفری
ye fakhar to hasil hy k bury hain k bhaly hain
ye fakhar to hasil hy k bury hain k bhaly hain
do char qadam ham bhi tere sath chaly hain
jalna to chiraghoon ka muqad'dar hy azal sey
ye dill k kanwal hain k bujhy hain na jaly hain
they kitny sitary k sar e shaam hi dobey
hangam e seher kitny hikhurdheed dhaly hain
jo jheyl gay hans k kari dhoop k tewar
taroon ki khunk chaaon main wo log jaly hain
aik shama bujhai to kai or jala liin
ham gardidsh e doran sey bari chaal chalay hain
do char qadam ham bhi tere sath chaly hain
jalna to chiraghoon ka muqad'dar hy azal sey
ye dill k kanwal hain k bujhy hain na jaly hain
they kitny sitary k sar e shaam hi dobey
hangam e seher kitny hikhurdheed dhaly hain
jo jheyl gay hans k kari dhoop k tewar
taroon ki khunk chaaon main wo log jaly hain
aik shama bujhai to kai or jala liin
ham gardidsh e doran sey bari chaal chalay hain
kashtiyan sahilooun p laut ayi
کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں
اس طرف دور تک سمندر تھا
کیا کریں ہم تمھارے آوارہ
بند گلیاں اگر نصیب میں ہوں
طائران قفس نصیب ہیں ہم
پھرپھڑاتا خوشی سمجھتے ہیں
احتراماً اداس لوگوں کی
بستیوں میں قدم نہیں رکھتے
ورادات سفر سے واقف ہوں
آبلوں کو شمار کیا کرتا
آپ کو دیکھ بھی لیا ہوتا
آئینوں سے پرے نہیں جھانکا
شہر سجا ہوا ہے یوں گویا
ہم کسی خوف کے غلام ہوئے
مدتوں بعد ہم نے جانا ہے
یہ خدا بھی کوئی ریاضت ہے
kitny chehray din bhar dhookha
َ
اذیت
کتنے چہرے
دن بھر دھوکہ دیتے ہیں
کتنی آنکھیں
دن بھر کہ دھوکہ کھاتی ہیں
کتنے دل
ہر رات ویرانی سے
بھر جاتے ہیں، مر جاتے ہیں لیکن تُو
سب کچھ دیکھتا رہتا ہے خاموشی سے
کتنے چہرے
دن بھر دھوکہ دیتے ہیں
کتنی آنکھیں
دن بھر کہ دھوکہ کھاتی ہیں
کتنے دل
ہر رات ویرانی سے
بھر جاتے ہیں، مر جاتے ہیں لیکن تُو
سب کچھ دیکھتا رہتا ہے خاموشی سے
anjanay hain khoof mujhy
انجانے ہیں خوف مجھے
روز دھڑکتا رہتا ہوں
بے کاری کے لمحوں میں
یادیں گنتا رہتا ہوں
روز ادھوری خواہش کی
ویرانی بڑھ جاتی ہے
ساون کی یہ بیماری
آنکھوں کو لگ جاتی ہے
بعض اوقات محبت بھی
اندر اندر رہتی ہے
ہجر چھپا رہتا ہے اور
غم ظاہر ہو جاتا ہے
آنکھیں تو چپ رہتی ہیں
نم ظاہر ہو جاتا ہے
miloo hum say bus tanhyi kehni hy
َ
ملو ہم سے ۔۔ حصہ دوم
ملو ہم سے
ہمیں تنہائی کہتی ہے
مجھے بھی ساتھ ہی رکھو
ہمیں تنہائی یہ کہتی ہے اور دامن پکڑ کر ساتھ چل پڑتی ہے بستی میں
وہ جس شب
تم نے آنے کا کہا لیکن آئے
اسی پل سے ستارے رات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اور کئی جنگل بھری برسات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اب کہاں ہو تم
ملو ہم سے ،ملو ہم سے
ہم اپنی ذات سے بچھڑے ہو ئے ہیں
ہاں ملو ہم سے
ہمیں زخمی تمناؤں کے افسردہ غلافوں اور ردائے کرب میں پالا گیا ہے
اور ہماری پرورش جس ہجر کے ہاتھوں ہوئی ہے
عمر سے بے سائبانی کے کٹہرے میں کھڑا
اپنی صفائی دے رہا ہے
جو عدالت مر چکی ہو
اس عدالت میں کسی کی کون سنتا ہے
یا آخر کون سن سکتا ہے ایسے میں
جہاں خود مدعی ملزم ہو
اور الزام کا مطلب جہاں بس جرم ہو
تو فیصلے میں دیر کا ہے کی
ملو ہم سے
ہمارے فیصلے بھی ہو چکے ہیں بن گواہوں کے
فقط تقدیر کی مانی گئی ہے
ہم مقدر کے ستارے سے گرے
امید کی اجڑی ہوئی شاخوں پہ لٹکے ہاتھ اور پاؤں ہلاتے جارہے ہیں
ہم یہی کچھ ہیں
ملو ہم سے
ہمیں تنہائی کہتی ہے
مجھے بھی ساتھ ہی رکھو
ہمیں تنہائی یہ کہتی ہے اور دامن پکڑ کر ساتھ چل پڑتی ہے بستی میں
وہ جس شب
تم نے آنے کا کہا لیکن آئے
اسی پل سے ستارے رات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اور کئی جنگل بھری برسات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اب کہاں ہو تم
ملو ہم سے ،ملو ہم سے
ہم اپنی ذات سے بچھڑے ہو ئے ہیں
ہاں ملو ہم سے
ہمیں زخمی تمناؤں کے افسردہ غلافوں اور ردائے کرب میں پالا گیا ہے
اور ہماری پرورش جس ہجر کے ہاتھوں ہوئی ہے
عمر سے بے سائبانی کے کٹہرے میں کھڑا
اپنی صفائی دے رہا ہے
جو عدالت مر چکی ہو
اس عدالت میں کسی کی کون سنتا ہے
یا آخر کون سن سکتا ہے ایسے میں
جہاں خود مدعی ملزم ہو
اور الزام کا مطلب جہاں بس جرم ہو
تو فیصلے میں دیر کا ہے کی
ملو ہم سے
ہمارے فیصلے بھی ہو چکے ہیں بن گواہوں کے
فقط تقدیر کی مانی گئی ہے
ہم مقدر کے ستارے سے گرے
امید کی اجڑی ہوئی شاخوں پہ لٹکے ہاتھ اور پاؤں ہلاتے جارہے ہیں
ہم یہی کچھ ہیں
is qadar mill gayi ghum ko jala
َ
اس قدر مل گئی غم کو جِلا
زندگی سے نہیں ہے کوئی گلہ
دھوپ سے تھا بھرا ہوا جیون
اک تیری چھاؤں میں سکون ملا
بے سبب بے قرار تھا موسم
بے سبب من میں کوئی پھول کھلا
کرنے والی تھیں تار تار یہی
آ کے جن بستیوں میں چاک سلا
بلبلا اٹھا صبر شدت سے
تب کہیں جا کے اک درد ہلا
ہو گیا ہوں میں اس قدر نازک
سانس لی اور دل کا زخم پھلا
اس قدر مل گئی غم کو جِلا
زندگی سے نہیں ہے کوئی گلہ
دھوپ سے تھا بھرا ہوا جیون
اک تیری چھاؤں میں سکون ملا
بے سبب بے قرار تھا موسم
بے سبب من میں کوئی پھول کھلا
کرنے والی تھیں تار تار یہی
آ کے جن بستیوں میں چاک سلا
بلبلا اٹھا صبر شدت سے
تب کہیں جا کے اک درد ہلا
ہو گیا ہوں میں اس قدر نازک
سانس لی اور دل کا زخم پھلا
milo hum say k hum bichray huy hain
ملو ہم سے
ملو ہم سے ۔۔ حصہ اول
ملوہم سے
کہ ہم بچھڑے ہوئے ہیں
ہمارے خواب آنکھوں سے جدا
تعبیر جیون سے
ہمارے آنسوؤں میں آرزوؤں کی کسک ویسی نہیں اب کے
دلو ں میں درد بھی پہلو بدل کر اور بن بیٹھا
ہماری شام اب روئے تو پلکوں سے جدائی کی جگہ مایوسیوں کا غم ٹپکتا ہے
ہمارا دل دلِ ویران ہو کر بھی کسی کے درد کی خواہش نہیں کرتا
ملو ہم سے
ہمارا حال بھی دیکھو
محبت کے مراحل جس طرح سے سر کیسے ہم نے
لہو کو بھی پسینہ آ گیا اکثر
ہمارے چیتھڑے پاگل ہوا جیسے اڑا لاتی تھی بستی سے
شب حیران سے پوچھو
شب ویران حیرت سے ہمیں تکتی تو کہتی
مجتمع ہو کر یہاں سے لوٹ آخر کیوں نہیں جات
ملو ہم سے ۔۔ حصہ اول
ملوہم سے
کہ ہم بچھڑے ہوئے ہیں
ہمارے خواب آنکھوں سے جدا
تعبیر جیون سے
ہمارے آنسوؤں میں آرزوؤں کی کسک ویسی نہیں اب کے
دلو ں میں درد بھی پہلو بدل کر اور بن بیٹھا
ہماری شام اب روئے تو پلکوں سے جدائی کی جگہ مایوسیوں کا غم ٹپکتا ہے
ہمارا دل دلِ ویران ہو کر بھی کسی کے درد کی خواہش نہیں کرتا
ملو ہم سے
ہمارا حال بھی دیکھو
محبت کے مراحل جس طرح سے سر کیسے ہم نے
لہو کو بھی پسینہ آ گیا اکثر
ہمارے چیتھڑے پاگل ہوا جیسے اڑا لاتی تھی بستی سے
شب حیران سے پوچھو
شب ویران حیرت سے ہمیں تکتی تو کہتی
مجتمع ہو کر یہاں سے لوٹ آخر کیوں نہیں جات
ik baar hi cahat ki saza kyun nhi deetay
اک بار ہی چاہت کی سزا کیوں نہیں دیتے
زندہ ہوں تو مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتا
اک آگ جو بجھتی نہ بھڑکتی ہے زیادہ
اس آگ کو دامن کی ہوا کیوں نہیں دیتے
بچھڑے ہوئے لمحے بھی کبھی لوٹ کے آئے
بچھڑے ہوئے لمحوں کو بھلا کیوں نہیں دیتے
دریا میں پکارے چلے جاتے ہو ہمیشہ
صحراؤں میں ساون کو صدا کیوں نہیں دیتے
دیکھو نہ کئی یار بہت خوفزدہ ہیں
پل بھر کو چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
kaun kahan say lay aay apnay jesa dil logo
کون کہاں سے لے آئے
اپنے جیسا دل لوگو
رنج و غم کا عادی ہے
خوشیوں سے کب بہلے گا
اس کی آنکھوں سے پہلے
ایک سمندر آتا ہے
میرے دل سے پہلے بھی
کتنے صحرا آتے ہیں
ایک سمندر وہ ہے جو
آسمان پر رہتا ہے
اک صحرا ایسا بھی ہے
جو پانی میں ہوتا ہے
میں وہ بادل ہوں شاید
جو صحرا سے اٹھتا ہے
un ginat behisab aan busay
َ
ان گنت بے حساب آن بسے
آنکھ اجڑی تو خواب آن بسے
دل عجب شہر ہے محبت کا
ہر گلی میں سراب آن بسے
اس سے اچھا تھا تم ہی رہ جاتے
تم گئے اور عذاب آن بسے
تیرے آنے کی رت سے پہلے ہی
کیاریوں میں گلاب آن بسے
آنکھ میں آ کے بس گئے آنسو
آنسوؤں میں سحاب آن بسے
ان گنت بے حساب آن بسے
آنکھ اجڑی تو خواب آن بسے
دل عجب شہر ہے محبت کا
ہر گلی میں سراب آن بسے
اس سے اچھا تھا تم ہی رہ جاتے
تم گئے اور عذاب آن بسے
تیرے آنے کی رت سے پہلے ہی
کیاریوں میں گلاب آن بسے
آنکھ میں آ کے بس گئے آنسو
آنسوؤں میں سحاب آن بسے
tumhara pyara chup chup k kayi chehray badlta hy
تمھارا پیارا چھپ چھپ کر کئی چہرے بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تمھارا ہجر شدت سے میرے دل کو مسلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
سمندر آشنا آنکھوں میں صحرا آن بستے ہیں تمھیں جب بھول جاتا ہوں
پھر ان صحراؤں میں اک خواب کا چشمہ نکلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
میں اپنے ہاتھ سے تیری سنہری یاد کی پلکیں سجاتا ہوں خیالوں میں
خیالوں میں تیرا موسم کئی پہلو بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تیری پر چھائیاں، ہر سو میرے، تنہائیوں کا رقص کرتی ہیں اداسی پر
میرے سینے میں اک بے چین سا بچہ مچلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
کسی فٹ پاتھ پر، بازار میں باغات میں یا پھر کسی دریا کنارے پر
بہت خوش ہو کے جب کوئی کسی کے ساتھ چلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
میں سارا دن کوئی سنگی مجسمہ بن کے رہتا ہوں مگر جب شام ڈھلتی ہے
میرے دل کی جگہ پر کوئی پتھر سا پگھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تصور میں تمھارے سنگ بیتی بارشیں اکثر تمھیں آواز دیتی ہیں
نگاہوں میں تمھاری دھوپ کا اک دیپ جلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
کبھی کوئی ستارہ آنکھ سے ہوتا ہوا بجھتا ہے آکے گود میں گر کر
بھی کوئی بہت دور ابھرتا اور ڈھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
dilooun p jabar ki tamam hikmatyin olat gayi
َ
دلوں پہ جبر کی تمام حکمتیں الٹ گئیں
جدائیوں میں اور بھی رفاقتیں سمٹ گئیں
تیرے دیار یاد سے گزر رہا تھا قافلہ
کہیں تو دن پلٹ گئے کہیں شبیں پلٹ گئیں
میں جس کسی محاذ پہ صفیں بدل بدل گیا
میرے مقابلے میں تیری آرزؤئیں ڈٹ گئیں
جدائیوں سے دامن خیال تو چھڑا لیا
مگر کئی اداسیاں نصیب سے چمٹ گئیں
عجیب واقع ہے ایک دن سکوت شہر سے
قلم بچا رہے تھے ہم کہ انگلیاں بھی کٹ گئیں
دلوں پہ جبر کی تمام حکمتیں الٹ گئیں
جدائیوں میں اور بھی رفاقتیں سمٹ گئیں
تیرے دیار یاد سے گزر رہا تھا قافلہ
کہیں تو دن پلٹ گئے کہیں شبیں پلٹ گئیں
میں جس کسی محاذ پہ صفیں بدل بدل گیا
میرے مقابلے میں تیری آرزؤئیں ڈٹ گئیں
جدائیوں سے دامن خیال تو چھڑا لیا
مگر کئی اداسیاں نصیب سے چمٹ گئیں
عجیب واقع ہے ایک دن سکوت شہر سے
قلم بچا رہے تھے ہم کہ انگلیاں بھی کٹ گئیں
a laga jungle dard dewaar say
َ
آلگا جنگل درد دیوار سے
اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے
ہمشکل بچاتے ہوئے
لوگو ں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل تو آیا
لیکن باہر آ کر پتہ چلا
کہ میرے پاؤں میری ٹانگوں کے ساتھ نہیں ہیں
میں واپس پلٹا
اور خاصی کوشش کے بعد صرف جوتے تلاش کر سکا
سڑک پار کرتے ہوئے
ایک رفتاری گاڑی کی زد میں آیا تو بچ نہ سکا
گاڑی مجھے اچھال کر دور پھینک گئی
اور جاتے جاتے میری ٹانگ اپنے ساتھ لے گئی
میرے جوتے وہیں پڑے رہ گئے
اور مجھے ہسپتا ل پہنچا دیا گیا
جہاں میری آنکھ
میری بے ہوشی کے عالم میں عطیے کے طور پہ لے لی گئی
کچھ دنوں بعد ہسپتال سے فارغ ہو کر نکلا
تو ایک جیب کترے سے ٹکرا گیا
جو جیب کو بالکل خالی پا کر
میری انگلیاں ہی کاٹ کر لے گیا
میں رپورٹ درج کرانے گیا تو
محافظوں نے کہا
کہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی
اتنے صحیح سلامت بازو کھلے عام ساتھ لیے پھرے
اور پھر انھوں نے احتیاطاً میرے ہاتھ جسم سے کاٹ کے اپنے
مال خانے میں رکھ لیے
وہاں سے چلا اور بازار میں آیا
تو جگہ جگہ اشتہاروں بینروں سے دیواریں بھری نظر آئیں
جن میں ایمان والوں سے
ملک، قوم اور مذہب کے نام پر
سروں اور گردنوں کی قربانی پیش کرنے کی ایپلیں کی گئی تھیں
اس سے پہلے کہ کچھ سمجھتا یا سوچتا
عقیدوں اور نظریات کا ایک اژدہام مجھ پر حملہ آور ہو چکا تھا
جو بالآ خر میرا سر میرے تن سے جدا کر کے لے گیا
میں لڑ کھڑایا اور زمین پر آ رہا
دو تین پتھر یلی ایڑیاں مجھے کچلتے ہوئے گزر گئیں
ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ
دو یخ برفیلے ہاتھوں نے اٹھایا میرا کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بدن
اور ہاتھ سے دھکیلے جانے والے ایک چھوٹے سے لکڑی کے
چھکڑے لٹا دیا
چھکڑا ہلا اور ایک سمت دھکیلا جانے لگا
ساتھ ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی
" دے غریب کو اللہ تجھے ساری دنیا کی بادشاہت دے "
" دے غریب کو اللہ تجھے زندگی میں کوئی دکھ نہ دے "
کچھ ہی دیر بعد
چھوٹے چھوٹے سکے میرے شکستہ جسم پر گرنے لگے
آلگا جنگل درد دیوار سے
اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے
ہمشکل بچاتے ہوئے
لوگو ں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل تو آیا
لیکن باہر آ کر پتہ چلا
کہ میرے پاؤں میری ٹانگوں کے ساتھ نہیں ہیں
میں واپس پلٹا
اور خاصی کوشش کے بعد صرف جوتے تلاش کر سکا
سڑک پار کرتے ہوئے
ایک رفتاری گاڑی کی زد میں آیا تو بچ نہ سکا
گاڑی مجھے اچھال کر دور پھینک گئی
اور جاتے جاتے میری ٹانگ اپنے ساتھ لے گئی
میرے جوتے وہیں پڑے رہ گئے
اور مجھے ہسپتا ل پہنچا دیا گیا
جہاں میری آنکھ
میری بے ہوشی کے عالم میں عطیے کے طور پہ لے لی گئی
کچھ دنوں بعد ہسپتال سے فارغ ہو کر نکلا
تو ایک جیب کترے سے ٹکرا گیا
جو جیب کو بالکل خالی پا کر
میری انگلیاں ہی کاٹ کر لے گیا
میں رپورٹ درج کرانے گیا تو
محافظوں نے کہا
کہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی
اتنے صحیح سلامت بازو کھلے عام ساتھ لیے پھرے
اور پھر انھوں نے احتیاطاً میرے ہاتھ جسم سے کاٹ کے اپنے
مال خانے میں رکھ لیے
وہاں سے چلا اور بازار میں آیا
تو جگہ جگہ اشتہاروں بینروں سے دیواریں بھری نظر آئیں
جن میں ایمان والوں سے
ملک، قوم اور مذہب کے نام پر
سروں اور گردنوں کی قربانی پیش کرنے کی ایپلیں کی گئی تھیں
اس سے پہلے کہ کچھ سمجھتا یا سوچتا
عقیدوں اور نظریات کا ایک اژدہام مجھ پر حملہ آور ہو چکا تھا
جو بالآ خر میرا سر میرے تن سے جدا کر کے لے گیا
میں لڑ کھڑایا اور زمین پر آ رہا
دو تین پتھر یلی ایڑیاں مجھے کچلتے ہوئے گزر گئیں
ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ
دو یخ برفیلے ہاتھوں نے اٹھایا میرا کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بدن
اور ہاتھ سے دھکیلے جانے والے ایک چھوٹے سے لکڑی کے
چھکڑے لٹا دیا
چھکڑا ہلا اور ایک سمت دھکیلا جانے لگا
ساتھ ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی
" دے غریب کو اللہ تجھے ساری دنیا کی بادشاہت دے "
" دے غریب کو اللہ تجھے زندگی میں کوئی دکھ نہ دے "
کچھ ہی دیر بعد
چھوٹے چھوٹے سکے میرے شکستہ جسم پر گرنے لگے
mohbat bhi kuch aissi
محبت بھی کچھ ایسی
مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے
کہ بارش جس قدر بھی ٹوٹ کر برسے
ذرا پل بھر کو پیاسی ریت کے لب بھیگ جاتے ہیں
مگر بس اک ذرا پل بھر
مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو پرندو ں کو فضاؤں سے گلوں کو خوشبوؤں سے
منظروں کو لہلاتے موسموں سے
جس میں چھونے، جذب رکھنے اور گلے مل کے ہمیشہ مسکرانے کے
لیے چاہتوں اور خواہشوں کی سب حدوں کو پار کر جائے
مجھے خود سے محبت ہے مگر
اتنی جتنی مپرے سودائی کو مجھ سے
وہ اپنے رات اور دن، دھوپ چھاؤں، ساحلوں، دریا کناروں کو
فقط اک میرے نقطے میں سمیٹے
اور میری چاہتوں میں
آنکھ سے دل، روح سے جدان کی ہر کیفیت میں ڈوبتا، روتا، ابھرتا
مسکراتا ذات اور معروض کے سارے حوالوں سے کبھی کا کٹ چکا ہے
اور مجھے اس سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے
مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے
کہ بارش جس قدر بھی ٹوٹ کر برسے
ذرا پل بھر کو پیاسی ریت کے لب بھیگ جاتے ہیں
مگر بس اک ذرا پل بھر
مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو پرندو ں کو فضاؤں سے گلوں کو خوشبوؤں سے
منظروں کو لہلاتے موسموں سے
جس میں چھونے، جذب رکھنے اور گلے مل کے ہمیشہ مسکرانے کے
لیے چاہتوں اور خواہشوں کی سب حدوں کو پار کر جائے
مجھے خود سے محبت ہے مگر
اتنی جتنی مپرے سودائی کو مجھ سے
وہ اپنے رات اور دن، دھوپ چھاؤں، ساحلوں، دریا کناروں کو
فقط اک میرے نقطے میں سمیٹے
اور میری چاہتوں میں
آنکھ سے دل، روح سے جدان کی ہر کیفیت میں ڈوبتا، روتا، ابھرتا
مسکراتا ذات اور معروض کے سارے حوالوں سے کبھی کا کٹ چکا ہے
اور مجھے اس سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے
mujhy tum yaad aatay hoo
َ
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خواہش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں
یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم پرنم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمھارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریا، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
میری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
میری بے چینیوں میں جب تمھاری تند خو بخشش کھٹکتی ہے
تمھاری بے سبب دوری سلگتی ہے
یا پھر جب بھی میری آنکھوں کے صحرا میں
تمھاری یاد کی تصویر جلتی ہے، جدائی ہاتھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مقدر کے ستاروں پر
زمانوں کے اشاروں پر
اداسی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو
سہانی شام ہو کوئی
کہیں بدنام ہو کوئی
بھلے گل فام ہو کوئی
کسی کے نام ہو کوئی
مجھے تم یاد آتے ہو
کہیں بارش برس جائے
کہیں صحرا ترس جائے
کہیں کالی گھٹا اترے
کہیں بادصبا ٹھہرے
تمھارے اور میرے درمیاں آ کر خدا ٹھہرے
تو میری زندگی کے اول و آخر
تم اس لمحے
خدا کے بعد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خواہش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں
یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم پرنم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمھارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریا، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
میری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
میری بے چینیوں میں جب تمھاری تند خو بخشش کھٹکتی ہے
تمھاری بے سبب دوری سلگتی ہے
یا پھر جب بھی میری آنکھوں کے صحرا میں
تمھاری یاد کی تصویر جلتی ہے، جدائی ہاتھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مقدر کے ستاروں پر
زمانوں کے اشاروں پر
اداسی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو
سہانی شام ہو کوئی
کہیں بدنام ہو کوئی
بھلے گل فام ہو کوئی
کسی کے نام ہو کوئی
مجھے تم یاد آتے ہو
کہیں بارش برس جائے
کہیں صحرا ترس جائے
کہیں کالی گھٹا اترے
کہیں بادصبا ٹھہرے
تمھارے اور میرے درمیاں آ کر خدا ٹھہرے
تو میری زندگی کے اول و آخر
تم اس لمحے
خدا کے بعد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
pi na milan ko aay sanwal
پی نہ ملن کو آئے سانول
من پنچھی کرلائے سانول
دل محتاط طبیعت والا
بن پریتم پچھتاوے سانول
تیری آس پہ بیٹھے بیٹھے
برکھا بیت نہ جائے سانول
اندر بیٹھا ڈیرے ڈالے
گھڑی گھڑی بہکائے سانول
آگ لگا جائے اشکوں میں
پلکوں کو سلگائے سانول
بھیڑ سے سہا ہوا ہوں شاید
تنہائی بہلائے سانول
کون دلاسہ دے زخموں کو
کون انھیں سمجھائے سانول
غم آ جاتے ہیں رستے میں
دامن کو پھیلائے سانول
ہنستا رہنے والا فرحت
چھپ چھپ نیر بہائے سانول
shayad is terhan samjh jaoo
شاید اس طرح تم سمجھ جاؤ
تم نے کہا
بہت سارے ناموں میں لکھا ہوا نام
محبوب نہیں کہلا سکتا
اور بہت ساری تصویروں میں لگی ہوئی تصویر
پسندیدہ ترین
ثابت نہیں ہوتی
جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ
بہت سارے نام نہیں ہوں گے تو ایک نام سر فہرست کس طرح آئے گا
اور سب سے زیادہ اپنا کیسے لگے گا
اور اگر کافی ساری تصویریں نہیں ہوں گی
تو ان میں سے ایک کو
اٹھا کر آنکھوں سے لگا لینے کی لذت
کیسے نصیب ہو سکتی ہے
میں کچھ کہہ نہیں سکتا
کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں
تم یوں کرو
کہ کسی دن کسی قد آئینے کے سامنے
دیر تک خاموش بیٹھے خود کو جھانکتے رہو اور آنکھوں کو مل مل کے بار بار جھانکو
یا کسی گنبد میں
دیر تک اپنا نام لے کر زور زور سے آوازیں دو
اور پھر کبھی بہت سارے لوگوں کے درمیان خود کو دیکھو
اور بہت ساری آوازیں میں
اپنی آواز سنو
شاید اس طرح تم
زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکو
جو میں تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں
باتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی
باتوں کے درمیان بھی
اور کہیں باتوں کے پیچھے بہت اندر بھی
شام ہر روز کیوں آ جاتی ہے
اداس اور خاموش
اور سوگوار
تم ہر روز کیوں آ جاتے ہو
ہر روز اور بہت زیادہ
zaya kertay thy mulakatooun koo
ضائع کرتے تھے ملاقاتوں کو
ہم سمجھتے ہی نہ تھے باتوں کو
ان کو عادت ہے میری آنکھوں کی
کون سمجھائے گا برساتوں کو
کتنے معصوم ہے وہ لوگ کہ جو
کچھ سمجھتے ہی نہیں راتوں کو
وہ مجھے دام میں لینے کے لیے
کام میں لایا مدارتوں کو
ہم کہاں مانتے ہیں ذاتوں کو
پاس رکھو سبھی ساداتوں کو
آستینوں پہ توجہ دے کر
تاڑ لیتا ہوں کئی گھاتوں کو
aankh say rooh ka ghum zahir hy
آنکھ سے روح کا غم ظاہر ہے
اس کا ایک ایک ستم ظاہر ہے
بے خیالی میں تمھاری ہی طرف
میرے اٹھیں گے قدم ظاہر ہے
کچھ چھپا لینے سے کیا ہے حاصل
ان کا جتنا ہے کرم ظاہر ہے
دل کے بھیگے ہوئے موسم کی فضا
از روئے دیدہ نم ظاہر ہے
تم بھلا دو گے تو پھر تم کو بھی
بھول ہی جائیں گے ہم ظاہر ہے
jo usky chehray pay rungay haya tehar jay
جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے
تو سانس، وقت، سمندر، ہوا ٹھہر جائے
وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم
وہ گنگنائے تو باد صبا ٹھہر جائے
سبک خرام صبا چال چل پڑے جب بھی
ہزار پھول سر راہ آ ٹھہر جائے
وہ ہونٹ ہونٹوں پہ رکھ دے اگر دم آخر
مجھے گماں ہے کہ آئی قضا ٹھہر جائے
میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو جیسے جم جاؤں
وہ آنکھ جھپکے تو چاہوں ذرا ٹھہر جائے
mujhy ansooun mein kissi kay sikay ki talash hy
مجھے آنسوؤں میں کسی کے سکھ کی تلاش ہے
جو میرے غم کے سمندروں کا غرور ہو
۔
ہے عجیب صورتحال وہم و گمان دل
کبھی دھڑکوں کے سکوت میں کبھی شور میں
۔
رہے ایروں غیروں کے ہاتھ میں تیرے جسم و جاں
یہ جو چاہے جانے کا شوق ہے یہ عجیب ہے
۔
غم دل نے آنکھوں میں جال رکھے ہیں کس لیے
یہاں آنسوؤں کا کوئی پرندہ نہیں رہا
۔
یہ جو ریزہ ریزہ بٹی ہوئی ہیں طبیعتیں
کسی روز ریت میں جھونک دیں گی ہجوم کو
dil roy zaar zaar sajan
َ
دل روئے زار و زار سجن
تیرا کب ہو گا دیدار سجن
تیرا ہر لمحہ احساس پیا
تیرے ہر جانب آثار سجن
اور تیرا کام مسیحائی
ہم صدیوں کے بیمار سجن
اک ویرانی، اک تنہائی
تو ان دونوں کے پار سجن
کر لیں آنکھوں کے دریا میں
ہم نے پلکیں پتوار سجن
کچھ دیر گلے لگ رو پائیں
نا ممکن ہے دو یار سجن
دل روئے زار و زار سجن
تیرا کب ہو گا دیدار سجن
تیرا ہر لمحہ احساس پیا
تیرے ہر جانب آثار سجن
اور تیرا کام مسیحائی
ہم صدیوں کے بیمار سجن
اک ویرانی، اک تنہائی
تو ان دونوں کے پار سجن
کر لیں آنکھوں کے دریا میں
ہم نے پلکیں پتوار سجن
کچھ دیر گلے لگ رو پائیں
نا ممکن ہے دو یار سجن
pus kainat
پس کائنات
نیم عریاں شب نیلگوں
آنکھ میں
آنکھ میں خواب بھی
خواب بھی خوف کا
آندھیوں کے تلے
ذات کی ریت پر
بھید کی انگلیوں کے کسی چھید میں
جاگتی زندگی بھاگتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
درد میں
درد میں آس بھی
آس بھی موت کی
ایک دکھ کے تلے
ان گنت دائرے
دائروں میں گھری بے نوا زندگی بے وفا زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
شہر میں
شہر میں قہر میں
قہر بھی وقت کا
وقت کے بے بصر سائباں کے تلے
مسئلہ رخت کا
ہر گھڑی زہر کی دلدلوں میں بجھی
پل بہ پل اپنے پر نوچتی زندگی سوچتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
راکھ میں بھاگ بھی
بھاگ بھی جبر کے
صبر کرتے کراتے پہنچ آئے ہیں قبر کی آگ تک
آگ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئیں
اتنی صدیاں مگر کچھ ملا ہے کہاں
سائباں، آسماں، آستاں سب جہاں رائیگاں
رائیگاں زندگی بے نشاں زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
خاک میں
خاک بھی خواب کی
خواب بھی خوف کا
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
chand utra hay aankh kinaray
َ
چاند اترا ہے آنکھ کنارے
تو کیوں میرے دل کے سہارے
رونے بیٹھ گیا ہے
چاند اترا ہے آنکھ کنارے
رونے بیٹھ گیا ہے
ایک اک کرکے گرے ستارے
دامن بھیگ گیا ہے
اندر اندر آنسو ٹپکے
اور من بھیگ گیا ہے
دل جانے کس درد کے مارے
رونے بیٹھ گیا ہے
رات ڈھلی تو آخر اک اک
تارا ڈوب گیا ہے
بیچ سمندر ایک عجیب
کنارا ڈوب گیا ہے
ایک پرندہ غم کے دھارے
رونے بیٹھ گیا ہے
تو کیوں میرے دل کے سہارے
رونے بیٹھ گیا ہے
چاند اترا ہے آنکھ کنارے
رونے بیٹھ گیا ہے
ایک اک کرکے گرے ستارے
دامن بھیگ گیا ہے
اندر اندر آنسو ٹپکے
اور من بھیگ گیا ہے
دل جانے کس درد کے مارے
رونے بیٹھ گیا ہے
رات ڈھلی تو آخر اک اک
تارا ڈوب گیا ہے
بیچ سمندر ایک عجیب
کنارا ڈوب گیا ہے
ایک پرندہ غم کے دھارے
رونے بیٹھ گیا ہے
tu nay deekha hy kabhi aik nazar shaam kay baad
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بع
jub tera intezar rehta hy
جب تیرا انتظار رہتا ہے
دل بہت بے قرار رہتا ہے
روح کو بے بسی سی رہتی ہے
درد با اختیار رہتا ہے
دل ہے بے چینیوں کی مٹھی میں
ذہن پر تو سوار رہتا ہے
اک تیرا دھیان آریوں کی طرح
روح کے آر پار رہتا ہے
وہم ہے یہ مجھے کہ تیری طرف
اک میرا غمگسار رہتا ہے
شب بہت بے قرار رہتا ہے
دن بہت سوگوار رہتا ہے
na poochoo zindagi kitni kari hy
نہ پوچھو زندگی کتنی کڑی ہے
سمجھ لو موت سینے میں گڑی ہے
لیے پھرتے ہیں سب اپنے جنازے
سبھی کو اپنی قبروں کی پڑی ہے
tumhara pyar meray char su abhi tuk hy
تمھارا پیار میرے چار سو ابھی تک ہے
کوئی حصار میرے چار سو ابھی تک ہے
بچھڑتے وقت جو سونپ کر گئے مجھے
وہ انتظار میرے چار سو ابھی تک ہے
تو خود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہے مگر
تیری پکار میرے چار سو ابھی تک ہے
میں جب بھی نکلا میرے پاؤں چھید ڈالے گا
جو خارزار میرے چار سو ابھی تک ہے
میں اب بھی گرتے ہوئے پانیوں کی قید میں ہوں
اک آبشار میرے چار سو ابھی تک ہے
کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار میرے چار سو ابھی تک ابھی تک ہے
neem uryaan shab nilgooun aankh mein
َ
پس کائنات
نیم عریاں شب نیلگوں
آنکھ میں
آنکھ میں خواب بھی
خواب بھی خوف کا
آندھیوں کے تلے
ذات کی ریت پر
بھید کی انگلیوں کے کسی چھید میں
جاگتی زندگی بھاگتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
درد میں
درد میں آس بھی
آس بھی موت کی
ایک دکھ کے تلے
ان گنت دائرے
دائروں میں گھری بے نوا زندگی بے وفا زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
شہر میں
شہر میں قہر میں
قہر بھی وقت کا
وقت کے بے بصر سائباں کے تلے
مسئلہ رخت کا
ہر گھڑی زہر کی دلدلوں میں بجھی
پل بہ پل اپنے پر نوچتی زندگی سوچتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
راکھ میں بھاگ بھی
بھاگ بھی جبر کے
صبر کرتے کراتے پہنچ آئے ہیں قبر کی آگ تک
آگ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئیں
اتنی صدیاں مگر کچھ ملا ہے کہاں
سائباں، آسماں، آستاں سب جہاں رائیگاں
رائیگاں زندگی بے نشاں زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
خاک میں
خاک بھی خواب کی
خواب بھی خوف کا
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
پس کائنات
نیم عریاں شب نیلگوں
آنکھ میں
آنکھ میں خواب بھی
خواب بھی خوف کا
آندھیوں کے تلے
ذات کی ریت پر
بھید کی انگلیوں کے کسی چھید میں
جاگتی زندگی بھاگتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
درد میں
درد میں آس بھی
آس بھی موت کی
ایک دکھ کے تلے
ان گنت دائرے
دائروں میں گھری بے نوا زندگی بے وفا زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
شہر میں
شہر میں قہر میں
قہر بھی وقت کا
وقت کے بے بصر سائباں کے تلے
مسئلہ رخت کا
ہر گھڑی زہر کی دلدلوں میں بجھی
پل بہ پل اپنے پر نوچتی زندگی سوچتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
راکھ میں بھاگ بھی
بھاگ بھی جبر کے
صبر کرتے کراتے پہنچ آئے ہیں قبر کی آگ تک
آگ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئیں
اتنی صدیاں مگر کچھ ملا ہے کہاں
سائباں، آسماں، آستاں سب جہاں رائیگاں
رائیگاں زندگی بے نشاں زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
خاک میں
خاک بھی خواب کی
خواب بھی خوف کا
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
usay mujhsy mohbat nahi thi
اسے مجھ سے محبت نہیں تھی
اسے مجھ سے محبت نہیں تھی
پھر بھی اس نے ہمیشہ تسلیم کیا
کہ میں اس کا آنے والا وقت ہوں
لیکن
اسے یہ علم نہیں تھا
کہ آنے والا وقت ہمیشہ دور ہی دکھائی دیتا ہے
اور پھر اچانک ہی گزر جاتا ہے
یہ بتائے بغیر
کہ وہ گزر رہا ہے
ghum kay bayban mein aa
َ
غم کے بیابان میں آ
ہم سفر
آ راہ کے کاٹنے چنیں
گر اسی میں کچھ سفر طے ہو گیا تو
اک غنیمت جان لیں گے
مان لیں گے کچھ سفر طے ہو گیا ہے
ورنہ ان راہوں میں تو اک خار کی تلوار بھی
کچھ کم نہیں ہے
ایک منزل پڑاؤ ان گنت
ایک پڑاؤ اور ہزاروں منزلیں
رنگ، خوشبو، چھاؤں، یخ بستہ شجر کا
اور سکوں کا کیوں کوئی دھوکہ سہیں، سپنے بنیں
لاشعور بے قراری
جسم کے گھاؤ سے بدتر ہے
کبھی تو آ
کھلی دیوانگی سے
دوسروں کے ساتھ اپنی بھی سبھی چیخیں سنیں
ہم سفر آ راہ کے کانٹے چنیں
ہم سفر
آ راہ کے کاٹنے چنیں
گر اسی میں کچھ سفر طے ہو گیا تو
اک غنیمت جان لیں گے
مان لیں گے کچھ سفر طے ہو گیا ہے
ورنہ ان راہوں میں تو اک خار کی تلوار بھی
کچھ کم نہیں ہے
ایک منزل پڑاؤ ان گنت
ایک پڑاؤ اور ہزاروں منزلیں
رنگ، خوشبو، چھاؤں، یخ بستہ شجر کا
اور سکوں کا کیوں کوئی دھوکہ سہیں، سپنے بنیں
لاشعور بے قراری
جسم کے گھاؤ سے بدتر ہے
کبھی تو آ
کھلی دیوانگی سے
دوسروں کے ساتھ اپنی بھی سبھی چیخیں سنیں
ہم سفر آ راہ کے کانٹے چنیں
labooun pay geet aur ankhooun mein khwab rukhtay thy
لبوں پہ گیت تو آنکھوں میں خواب رکھتے تھے
کبھی کتابوں میں ہم بھی گلاب رکھتے تھے
کبھی کسی کا جو ہوتا تھا انتظار ہمیں
بڑا ہی شام و سحر کا حساب رکھتے تھے
tumharay khwab meray saath saath chultay hain
تمھارے خواب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
کئی سراب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
تمھارا غم، غم دنیا علوم آگاہی
سبھی عذاب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
اسی لیے تو میں عریانوں میں سے ہوں محفوظ
بہت حجاب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
نہ جانے کون ہیں یہ لوگ جو کہ صدیوں سے
پس نقاب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
میں بے خیال کبھی دھوپ میں نکل آؤں
تو کچھ سحاب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
mein sulag sulag kay hava kay haath mein raakh tha
میں سلگ سلگ کے ہوا کے ہاتھ میں راکھ تھا
تیری مانگ بھول کے میری راہ میں آ گئی
صف رہروان طلب میں ہم بھی تھے مضطرب
یہ الگ کہ تیری نگاہ ہم پہ نہیں پڑی
میں جہاں جہاں سے ہوں منتشر کسی ذات کا
ہیں وہیں وہیں میرے انکشاف کے راستے
میں تیرے لحاظ سے مطمئن ہوں مگر ذرا
کبھی غور کر میری بے قراری پہ غور کر
ہمیں اس قدر تو وہ یاد آیا نہ تھا کبھی
شب ہجر اتنی اداس پہلے کبھی نہ تھی
mujh per sitam zareefi kay saath saath
مجھ پر ستم ظریف زمانے کے ساتھ ساتھ
مسکرا رہا تھا حشر اٹھانے کے ساتھ ساتھ
میں مٹ رہا تھا ان کو مٹانے کے ساتھ ساتھ
رکتے تھے ہاتھ تیر چلانے کے ساتھ ساتھ
دشمن اگرچہ تھے وہ مگر تھے تو آدمی
دل رو رہا تھا ٹھیک نشانے کے ساتھ ساتھ
تھے عشق میں عجیب سے رخنے پڑے ہوئے
خود روٹھتا تھا مجھ کو منانے کے ساتھ ساتھ
ایسا لگا کہ غم کے سوا کچھ نہیں یہاں
عالم سسک رہا تھا دیوانے کے ساتھ ساتھ
اس شہر میں عجیب تماشہ ہے زندگی
ہنستے ہیں لوگ نیر بہانے کے ساتھ ساتھ
miloo hum say
َ
ملو ہم سے ۔۔ حصہ سوم
ملو ہم سے
ہمارے نام جن ٹیلوں پہ کوئی دھوپ لکھ کر رکھ گئی تھی جل چکے ہیں اور
ہمارا رزق جن رستوں پہ کوئی بھوک پھیلا کر
ہماری کاوشوں پر ہنس گئی تھی
ہم وہی کچھ ہیں
ہمیں اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
انا نے کب نہیں توڑا ہمیں
اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
ہمیں ملنے ملانے دو
ملو ہم سے
ہمارے درد سے کھیلو
ہمیں لاچار رہنے دو
میری جاں تم ستارے توڑ لانے کی جہاں بھی بات کرتے ہو
ہمارے ہاتھ روتے ہیں
ہمارا دل بھی روتا ہے
تمھارے بھولپن کی شکلیں یا مشکلوں کا بھولپن
اکثر ہمیں بیمار رکھتا ہے
ملو ہم سے
ہماری خاک راہوں میں اڑاؤ
اور ہماری گرد سے کھیلو
زباں پر نا سمجھ باتوں کے الزامات کی بوجھاڑ کر دو
اور سکوت زرد سے کھیلو
گلے لگ کر ہماری خواہشوں کی برف کے اثرات جھیلو
اور سانسوں کی ہوائے سرد سے کھیلو
سمندر پار کرنے کا مصمّم خواب دیکھیں
اور پھر اس کی عجب تعبیر سے نظریں چرائیں
کیسا لگتا ہے ؟
ہم اپنے ساحلوں پر ادھ کھلے جن بادبانوں سے بندھے ہیں بادباں
کب ہیں
ملو ہم سے
ہمارے نام جن ٹیلوں پہ کوئی دھوپ لکھ کر رکھ گئی تھی جل چکے ہیں اور
ہمارا رزق جن رستوں پہ کوئی بھوک پھیلا کر
ہماری کاوشوں پر ہنس گئی تھی
ہم وہی کچھ ہیں
ہمیں اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
انا نے کب نہیں توڑا ہمیں
اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
ہمیں ملنے ملانے دو
ملو ہم سے
ہمارے درد سے کھیلو
ہمیں لاچار رہنے دو
میری جاں تم ستارے توڑ لانے کی جہاں بھی بات کرتے ہو
ہمارے ہاتھ روتے ہیں
ہمارا دل بھی روتا ہے
تمھارے بھولپن کی شکلیں یا مشکلوں کا بھولپن
اکثر ہمیں بیمار رکھتا ہے
ملو ہم سے
ہماری خاک راہوں میں اڑاؤ
اور ہماری گرد سے کھیلو
زباں پر نا سمجھ باتوں کے الزامات کی بوجھاڑ کر دو
اور سکوت زرد سے کھیلو
گلے لگ کر ہماری خواہشوں کی برف کے اثرات جھیلو
اور سانسوں کی ہوائے سرد سے کھیلو
سمندر پار کرنے کا مصمّم خواب دیکھیں
اور پھر اس کی عجب تعبیر سے نظریں چرائیں
کیسا لگتا ہے ؟
ہم اپنے ساحلوں پر ادھ کھلے جن بادبانوں سے بندھے ہیں بادباں
کب ہیں
jazba o shook ki ravani mein ghalti hoo gayi javani mein
جذبہ و شوق کی روانی میں
غلطی ہو گئی جوانی میں
زندگانی تو جیسے ڈوب گئی
ہجر اور غم کی بے کرانی میں
جانے کیا کہہ گیا ہے اشکوں کو
آگ سی لگ گئی ہے پانی میں
ایک دن دل حواس کھو بیٹھا
ایک چھوٹی سی ناگہانی میں
تجزیہ ہی نہیں کیا اس کا
عمر بیتی ہے خوش گمانی میں
اس کی عادت سے مجھ کو لگتا ہے
کوئی لذت ہے بدگمانی میں
اک کشش سی عجیب ہوتی ہے
عشق کی سلطنت کی رانی میں
وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہے
دکھ کے سورج کی سائبانی میں
اک محبت ہے اور جدائی ہے
عمر کی مختصر کہانی میں
dill udass rehta hy barishooun kay mausam mein
دل اداس رہتا ہے
بارشوں کے موسم میں
زندگی پگھلتی ہے
خواہشوں کے موسم میں
وقت ٹھہر جاتا ہے
منتظر نگاہوں میں
جنگلوں کے خطرے ہیں
بستیوں کی راہوں میں
ہوسکے تو لوٹ کے آنا
پیار کی پناہوں میں
عشق کا اجارہ ہے
دل کی شاہراہوں میں
khoobsoorat phoolooun aur rung barangi titliyooun ki kasam
َ
خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان
یوں ہو
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان
ٹمٹماتے ہوئے ستارے
جیسے بے گنار اور وسیع وعریض
ریگستانوں میں
نوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخوں کی طرح
دل میں اترتا جارہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنوئیں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم
خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان
یوں ہو
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان
ٹمٹماتے ہوئے ستارے
جیسے بے گنار اور وسیع وعریض
ریگستانوں میں
نوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخوں کی طرح
دل میں اترتا جارہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنوئیں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم
be sabab hain teri batyin aay dil
بے سبب ہیں تیری باتیں اے دل
کچھ بھی سنتی نہیں راتیں اے دل
کس طرح خود کو بچا پاؤ گے
ان گنت دکھ کی ہیں گھاتیں اے دل
درد کے زمرے میں ہی آتی ہیں
تیری جیتیں ہیں یا ماتیں اے دل
تم کو اشکوں کی قطاریں بھی لگیں
چاند تاروں کی براتیں اے دل
ہم رہتے ہیں اسی صحرا میں
روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل
mujh say naraz na hoo
َ
مجھ سے ناراض نہ ہو
مجھ سے ناراض نہ ہو
تجھ سے بے چینی کو ٹکرانے کی نیت تو نہیں
تجھ سے گھبرائے ہوئے دن کے تعارف میں میری مرضی
نہیں ہے شامل
تیری ویران خیالی میں میرا ہاتھ نہیں
میں تو کملائی ہوئی شاخ کی مانند ہوں بہت افسردہ
میں تو ذروں کی طرح چپ ہوں بہت
ایک ہی تلوے تلے
ایک ہی بار کئی مرتبہ آ جاتا ہے دل
اور میں چپ ہوں بہت
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضی سے ڈرتی ہے ہوا
اور مجھے غصے سے آ لگتی ہے
اور میری سانسوں کی ترتیب بدل دیتی ہے
تیری ناراضی سے ہوتا ہے سفر خوفزدہ
اور میری راہیں بدل دیتا ہے
اور میرے پاؤں جما دیتا ہے انگاروں پر
میں کئی روز سے کچھ باتوں سے جلتا ہوں بہت
ہائے جو ٹوٹ کے کرتے ہیں محبت وہ لوگ
ہائے جو دل میں بساتے نہیں نفرت وہ لوگ
میں کئی روز مر جاتا ہوں
تیری ناراضگی مجھے مارتی ہے
میں کئی روز سے جیتا ہوں بہت
تیرا پچھتاوا مجھے زندہ کیسے رکھتا ہے
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضگی سے شامیں بھی اڑاتی ہیں خاک
مجھ پہ ہنستی ہیں بہت راتیں بھی
اور مجھے دیر تلک تکتی ہیں برساتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
میں نے ملنا بھی ہے بہت ہے تم سے
اور کرنا ہیں بہت باتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
مجھ سے ناراض نہ ہو
تجھ سے بے چینی کو ٹکرانے کی نیت تو نہیں
تجھ سے گھبرائے ہوئے دن کے تعارف میں میری مرضی
نہیں ہے شامل
تیری ویران خیالی میں میرا ہاتھ نہیں
میں تو کملائی ہوئی شاخ کی مانند ہوں بہت افسردہ
میں تو ذروں کی طرح چپ ہوں بہت
ایک ہی تلوے تلے
ایک ہی بار کئی مرتبہ آ جاتا ہے دل
اور میں چپ ہوں بہت
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضی سے ڈرتی ہے ہوا
اور مجھے غصے سے آ لگتی ہے
اور میری سانسوں کی ترتیب بدل دیتی ہے
تیری ناراضی سے ہوتا ہے سفر خوفزدہ
اور میری راہیں بدل دیتا ہے
اور میرے پاؤں جما دیتا ہے انگاروں پر
میں کئی روز سے کچھ باتوں سے جلتا ہوں بہت
ہائے جو ٹوٹ کے کرتے ہیں محبت وہ لوگ
ہائے جو دل میں بساتے نہیں نفرت وہ لوگ
میں کئی روز مر جاتا ہوں
تیری ناراضگی مجھے مارتی ہے
میں کئی روز سے جیتا ہوں بہت
تیرا پچھتاوا مجھے زندہ کیسے رکھتا ہے
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضگی سے شامیں بھی اڑاتی ہیں خاک
مجھ پہ ہنستی ہیں بہت راتیں بھی
اور مجھے دیر تلک تکتی ہیں برساتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
میں نے ملنا بھی ہے بہت ہے تم سے
اور کرنا ہیں بہت باتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
tera wajood to mera gumaan doob gaya
تیرا وجود تو میرا گمان ڈوب گیا
افق میں دور کہیں آسماں ڈوب گیا
بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے
ہمیں تو لگتا ہے سارا جہان ڈوب گیا
ہوا سے رابطہ کرنے کی دیر تھی اور پھر
سمندروں میں میرا بادبان ڈوب گیا
تیرا خیال ابھرتا نہیں لبوں سے میرے
میری پناہ میں میرا سائباں ڈوب گیا
یہیں کہیں کوئی رویا ہے بیٹھ کر فرحت
یہیں کہیں تمھارا نشان ڈوب گیا
meray dil kay shaam sawairy ho aik baar kahoo tum meray hoo
میرے دل کے شام سویرے ہو
" اک بار کہو تم میرے ہو"
مجھے تم بن کچھ نہ دکھائی دے
کیوں اتنے گھور اندھیرے ہو
میں پنچھی پیار کے دیسوں کی
تم میرے رین بسیرے ہو
میں مال و منال محبت کا
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
کچھ بولو یا آزاد کرو
کیوں خاموشی سے گھیرے ہو
khoobsurat phooloun aur rang barangi titlyooun ki kasam
خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان
یوں ہو
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان
ٹمٹماتے ہوئے ستارے
جیسے بے گنار اور وسیع وعریض
ریگستانوں میں
نوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخوں کی طرح
دل میں اترتا جارہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنوئیں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم
mohbat ka safar kesa luga hy
محبت کا سفر کیسا لگا ہے
یہ جذبوں کا بھنور کیسا لگا ہے
بسے ہو دل میں تو یہ بھی بتاؤ
یہ غیر آباد گھر کیسا لگا ہے
یہی شکوہ تھا نا تم کو کہو اب
دیوانہ چشم تر کیسا لگا ہے
گلی کی رونقوں کے درمیاں میں
میرا سنسان در کیسا لگا ہے
میری تو روح تک گھائل ہوئی ہے
تمھیں اجڑا نگر کیسا لگا ہے
mujhy tum say ub bhi mohbat hy lakin
مجھے تم سے محبت اب بھی ہے لیکن
اگر خوشبو بکھر جائے تو خواہش میں نہیں رہتی
میں ایسی ریت ہوں
جس کو کوئی مٹھی میں بھر کے
تیز اور اندھی ہواؤں میں اچھالے
اور چلا جائے
dard na janay na manay
درد نہ جانے نی مائے
اس کے اپنے گیت نی مائے
گڑیا سے اب دل نا پہلے
چاند گیا ہے جیت نی مائے
وقت نے بیت ہی جانا تھا اور
وقت گیا بیت نی مائے
کرتا پھرے ہے دل دنیا میں
من مانی من میت نی مائے
بچھڑ گئی کوئل باغوں سے
بچھڑ گیا سنگیت نی مائے
باقی سارے رشتے جھوٹے
سچی تیری پریت نی مائے
chaand kay saath meri baat na thi pehli si
چاند کے ساتھ میری بات نہ تھی پہلی سی
رات آتی تھی مگر رات نہ تھی پہلی سی
ہم تیری یاد سے کل شب بھی ملے تھے لیکن
یہ ملاقات ملاقات نہ تھی پہلی سی
آنکھ کیوں لوٹ گئی خوف سے صحراؤں کو
کیونکہ اس بار تو برسات نہ تھی پہلی سی
اب کچھ اور طرح کی تھی اداسی ان میں
چاند تاروں کی یہ بارات نہ تھی پہلی سی
عشق نے پل میں بدل دی میری ساری دنیا
میں نے دیکھا کہ میری ذات نہ تھی پہلی سی
aankh bun jati hy sawan ki ghata shaam k bad
آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد
لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد
آہیں بھرتی ہے شب ہجر یتیموں کی طرح
سرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا شام کے بعد
شام تک قید رہا کرتے ہیں دل کے اندر
درد ہو جاتے ہیں سارے ہی رہا شام کے بعد
لوگ تھک ہار کے سو جاتے ہیں لیکن جاناں
ہم نے خوش ہو کے تیرا درد سہا شام کے بعد
شام سے پہلے تلک لاکھ سلائے رکھیں
جاگ اٹھتی ہے محبت کی انا شام کے بعد
خواب ٹکرا کے پلٹ جاتے ہیں بند آنکھوں سے
جانے کس جرم کی کس کو ہے سزا شام کے بعد
چاند جب روکے ستاروں سے گلے ملتا ہے
اک عجب رنگ کی ہوتی ہے فضا شام کے بعد
woh jo tul jati rehi sir say bala shaam k baad
وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد
کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد
ہم نے تنہائی سے پوچھا کہ ملو گی کب تک
اس نے بے چینی سے فوراً ہی کہا شام کے بعد
میں اگر خوش بھی رہوں پھر بھی میرے سینے میں
سوگواری روتی ہے میرے گھر میں سدا شام کے بعد
تم گئے ہو تو سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے
پھرتی رہتی ہے میرے گھر قضا شام کے بعد
لوٹ آتی ہے میری شب کی عبادت خالی
جانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعد
دن عجب مٹھی میں جکڑے ہوئے رکھتا ہے مجھے
مجھ کو اس بات کا احساس ہوا شام کے بعد
کوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلسل مجھ کو
دل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعد
مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس
کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد
dil roy zaroo zar sajaan
دل روئے زار و زار سجن
تیرا کب ہو گا دیدار سجن
تیرا ہر لمحہ احساس پیا
تیرے ہر جانب آثار سجن
اور تیرا کام مسیحائی
ہم صدیوں کے بیمار سجن
اک ویرانی، اک تنہائی
تو ان دونوں کے پار سجن
کر لیں آنکھوں کے دریا میں
ہم نے پلکیں پتوار سجن
کچھ دیر گلے لگ رو پائیں
نا ممکن ہے دو یار سجن
sooctay rehnay ki adat hoo gayi
َ
سوچتے رہنے کی عادت ہو گئی
چونکتے رہنے کی عادت ہو گئی
ہجر کی راتوں کے سنگ آنکھوں کو بھی
جاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
جانے کیا ڈر ہے کہ اپنے آپ سے
بھاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ نہیں لوٹے گا پھر کیوں راہگزر
دیکھتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ میرے اندر چھپا ہے اور اسے
بولتے رہنے کی عادت ہو گئی
سوچتے رہنے کی عادت ہو گئی
چونکتے رہنے کی عادت ہو گئی
ہجر کی راتوں کے سنگ آنکھوں کو بھی
جاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
جانے کیا ڈر ہے کہ اپنے آپ سے
بھاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ نہیں لوٹے گا پھر کیوں راہگزر
دیکھتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ میرے اندر چھپا ہے اور اسے
بولتے رہنے کی عادت ہو گئی
mujhy apnay khooun ka husan rukhna teekh say
مجھے اپنے خون کا حسن رکھنا ٹھیک سے
تو میں کس لیے تمھیں لال رنگ کے خواب دوں
سم ہجر دھیرے سے پھیل جاتا ہے روح میں
دبے پاؤں دشمن جان کیسے مچان میں
خط استوا پہ ہی اٹکی رہی میری
نہ ادھر سکوں تھا نہ خوش خیالی ادھر ملی
ہمیں اس لیے بھی تیرے خیال سے خوف تھا
یہ ہماری اپنی جڑوں میں پاتا ہے پرورش
زر و سیم میں بھی عجب کشش ہے کہ دیکھئے
چلے آرہے ہیں لپک لپک کے بڑے بڑے
mujhy apnay khoon ka husan rukhna teekh say
مجھے اپنے خون کا حسن رکھنا ٹھیک سے
تو میں کس لیے تمھیں لال رنگ کے خواب دوں
سم ہجر دھیرے سے پھیل جاتا ہے روح میں
دبے پاؤں دشمن جان کیسے مچان میں
خط استوا پہ ہی اٹکی رہی میری
نہ ادھر سکوں تھا نہ خوش خیالی ادھر ملی
ہمیں اس لیے بھی تیرے خیال سے خوف تھا
یہ ہماری اپنی جڑوں میں پاتا ہے پرورش
زر و سیم میں بھی عجب کشش ہے کہ دیکھئے
چلے آرہے ہیں لپک لپک کے بڑے بڑے
koi aisa hool thi ankh khulnay pay zindagi
کوئی ایسا ہول تھی آنکھ کھلنے پہ زندگی
کہ چیخ اٹھا ابھی خواب ہے ابھی خواب ہے
وہ تو مامتا کے مزاج کی کوئی رات تھی
میرا درد چوم کے اس نے گود میں بھر لیا
اگر ایک ٹانگ اٹھا بھی لوں میں زمین سے
تو یہ اختیار کے اک فریب کی شکل ہے
مجھے خود ہی دی ہوئی خصلتوں کے طفیل کیوں
وہ سزا کے طور پہ پیس دے گا قبور میں
kaun is shehar say is shehar talak saath chulay
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
کون قبروں میں بلکتی ہوئی ویرانی سنے
یہ بہت ہے کہ میری موت پہ روئے ہیں میرے چاہنے والے کتنے
ورنہ میں موت زدہ آدمی کیا کر لیتا
شکل افسردہ بنائی ہے جو کوشش سے کسی نے تو مہر بانی ہے
قبر کھودی ہے کشادہ تو یہ احسان ہے مجھ میت پر
آپ جھڑکا ہے، دعا مانگی ہے
اور اگربتیاں سلگائیں ہیں گل پھینکے ہیں
اور پھونکا ہے بہت پڑھ کے کلام
کاش اک بار کوئی مر کے کبھی جی اٹھے
ایک اک ذرے پہ سو بوسہ دے
ایک اک ہاتھ پہ بیعت کر لے
آج جن کندھوں پہ اس شہر تلک آیا ہوں
موت کی ساری جمع پونجی میری ان پہ نثار
موت کی دنیا الگ ہوتی ہے
موت کا شہر الگ ہوتا ہے
موت کا گھر بھی الگ ہوتا ہے
ساتھ مر کر بھی کوئی ساتھ نہیں رہ سکتا
بات اگر ہجر کی ہو
بات اگر ہجر کے درد کی ہو
بات کے ساتھ کہاں رات چلے
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
Subscribe to:
Posts (Atom)