Monday, 30 January 2012

کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے


کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے

کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی لاکھ سمندر پی جائے
کوئی لاکھ ستارے چُھو آئے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی زیست کا ساغر بھرتا ہے
کوئی پِھر خالی ہو جاتا ہے
کوئی لمحے بھر کو آتا ہے
کوئی پل بھر میں کھو جاتا ہے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے

عبیداللہ علیم

No comments:

Post a Comment