Monday 30 January 2012

kehtay hain kay ub hum jesay khata kaar buhut hain


کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطاکار بہت ہیں
اک رسمِ وفا تھی سو وفادار بہت ہیں

لہجے کی کھنک ہو کہ نگاہوں کی صداقت
یوسف کے لئے مصر کے بازار بہت ہیں

کچھ زخم کی رنگ میں گلِ تر کی قریں تھے
کچھ نقش کہ ہیں نقش بہ دیوار، بہت ہیں

راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا
رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں

اِک خواب کا احساں بھی اُٹھائے نہیں اُٹھتا
کیا کہیے کہ آسودۂ آزار بہت ہیں

کیوں اہلِ وفا! زحمتِ بیداد نگاہی
جینے کے لئے اور بھی آزار بہت ہیں

ہر جذبۂ بے تاب کے احکام ہزاروں
ہر لمحۂ بے خواب کے اصرار بہت ہیں

پلکوں تلک آ پہنچے نہ کرنوں کی تمازت
اب تک تو ادا آئینہ بردار بہت ہیں

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment