Monday 30 January 2012

joo diya tu nay humain woh soorat e zar rukh liya


جو دیا تُو نے ہمیں وہ صُورتِ زر رکھ لیا
تُو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر رکھ لیا

سِسکیوں نے چار سُو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اُس کی گود میں سر رکھ لیا

گُھٹ گیا تہذیب کے گُنبد میں ہر خواہش کا دَم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا

میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دُھول
اپنی آنکھوں کے لیے اُس نے سمندر رکھ لیا

درز تک سے اب نہ پُھوٹے گی تمنا کی پُھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا

وہ جو اُڑ کر جا چکا ہے دُور میرے ہاتھ سے
اُس کی اِک بچھڑی نشانی، طاق میں پر رکھ لیا

دِید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدیم
ہم نے آنکھوں میں تیرے جانے کا منظر رکھ لیا

پھینک دیں گلیاں برونِ صحن سب اُس نے عدیم
گھر کہ جو مانگا تھا میں نے، وہ پسِ در رکھ لیا

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment