Monday 30 January 2012

tamam umer ki tanhyi ki saza dy ker


تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا میرا منصف بھی فیصلہ دے کر

میرے خدا ، یہ برہنہ لباس پوش ہیں کون
عذاب کیا یہ دیا مجھ کو چشم وا دے کر

میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
اسے سکوں تو ملا مجھ کو بد دعا دے کر

کیا پھر اس نے وہی جو خود اس نے سوچا تھا
برا تو میں بھی بنا اس کو مشورہ دے کر

میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا میری آنکھوں کو ر تجگا دے کر

وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کے لیے
چلا گیا مجھے یادوں کا سلسلہ دے کر

جو وا کیا بھی دریچہ تو آج موسم نے
پہاڑ ڈھانپ دیا ابر کی ردا دے کر

کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

چٹخ چٹخ کے جلی شاخ شاخ جنگل کی
بہت سرو ر ملا آگ کو ہوا دے کر

پھر اس کے بعد پہاڑ اس کو خود پکاریں گے
تو لوٹ آ ، اسے وادی میں اک صدا دے کر

ستون ریگ نہ ٹھہرا عدؔیم چھت کے تلے
میں ڈھے گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر

No comments:

Post a Comment