قرار چھين ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے يادِ بہار چھوڑ گئے

ہماري چشم حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وھ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتني مدت سے
اسي کو آج وہ بيگانہ وار چھوڑ گئے

رگوں میں اک طبش درد کار جاگ اٹھي
دلوں ميں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے
ہوائے شام سے آنے لگي صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گسار چھوڑ گئے

نشاطِ محفل ليل و نہار لوٹ ليا
نصيب ميں غمِ ليل و نہار چھوڑ گئے
گھٹائيں چھائي ہيں ساون ہے مينہ برستا ہے
وہ کس سمے ميں ہميں اشکبار چھوڑ گئے

دل حزيں ہے اب اور عہد رفتہ کا ماتم
چمن کے سينے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامن اميدِ دل کے ہاتھوں سے
سواد ياس ميں ماتم گسار چھوڑ گئے

نہ آيا رحم ميرے آنسوؤں کي مِنت پر
کيا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
اميد و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
اميد و شوق کہاں اک مزار چھوڑ گئے

تمام عمر ہے اب اور فراق کي راتيں
يہ نقش گيسوئے مشکيں بہار چھوڑ گئے
ترس رہے ہيں مسرت کو عشق کے ارماں
ہميں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے

اميد خستہ، سکوں مضطرب ، خوشي بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہ درد کي غرض حزيں قبول نہ کي
ہميں وہ غمزدہ و دلفگار چھوڑ گئے

کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھي مليں نہ مليں
نظر ميں ايک ابدي انتظار چھوڑ گئے
ہماري ياد بھُلا کر وہ چل ديے اختر
اور اپني ياد ، فقط يادگار چھوڑ گئے