Tuesday 31 January 2012

lutf aram ka nahi milta

زل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

لطف آرام کا نہیں ملتا
آدمی کام کا نہیں ملتا

کیسے حاضر جواب ہو کہ جواب
میرے پیغام کا نہیں ملتا

اُس نے جب شام کا کیا وعدہ
پھر پتہ شام کو نہیں ملتا

جستجو میں بہت ہے وہ کافر
بھید اسلام کا نہیں ملتا

مل گیا میں تمہیں وگرنہ غلام
کوئی بے دام کا نہیں ملتا

چرخ پر جا کے عرض حال کروں
رستہ اس بام کا نہیں ملتا

نہ ملے رنگ رنگ میں جب تک
دل مئے آشام کا نہیں ملتا

ظرف بےمثل ہے دل پرخوں
جوڑا اس جام کا نہیں ملتا

تلخیء رشک کیا گوارا ہو
زہر بھی کام کا نہیں ملتا

داغ کی ضد سے ہے تلاش اُنہیں
کوئی اس نام کا نہیں ملتا

No comments:

Post a Comment