Tuesday 31 January 2012

saba khula humain unkay maun chupanay ka



سبب کھلا یہ ہمیں ان کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا

طریقِ خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں تا حشر اس کے آنے کا

چڑھاؤ پھول مری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا

وہ عذر جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کھانے کا

بہ تنگ آ کے جو کی میں نے ترک رسمِ وفا
ہر اک سے کہتے ہیں یہ حال ہے زمانے کا

جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر نہیں یہ میرے ہاتھ آنے کا

نہ سوچے ہم کہ تہِ تیغ ہو گی خلق اللہ
گھٹا نہ حوصلہ قاتل کے دل بڑھانے کا

اثر ہے اب کے مئے تند میں وہ اے زاہد
کہ نقشہ تک بھی نہ اترے شراب خانے کا

سمائیں اپنی نگاہوں میں ایسے ویسے کیا
رقیب ہی سہی، ہو آدمی ٹھکانے کا

لگی ہے چاٹ مجھے تلخی محبت کی
علاج زہر سے مشکل ہے زہر کھانے کا

تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ
نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا

لگی ٹھکانے سے بلبل کی خانہ بربادی
چراغ ِگل میں بھی تنکا ہے آشیانے کا

خطا معاف، تم اے داغ اور خواہشِ وصل
قصور ہے یہ فقط ان کے منہ لگانے

No comments:

Post a Comment