Monday 30 January 2012

pi na milan ko aay sanwal


پی نہ ملن کو آئے سانول
من پنچھی کرلائے سانول

دل محتاط طبیعت والا
بن پریتم پچھتاوے سانول

تیری آس پہ بیٹھے بیٹھے
برکھا بیت نہ جائے سانول

اندر بیٹھا ڈیرے ڈالے
گھڑی گھڑی بہکائے سانول

آگ لگا جائے اشکوں میں
پلکوں کو سلگائے سانول

بھیڑ سے سہا ہوا ہوں شاید
تنہائی بہلائے سانول

کون دلاسہ دے زخموں کو
کون انھیں سمجھائے سانول

غم آ جاتے ہیں رستے میں
دامن کو پھیلائے سانول

ہنستا رہنے والا فرحت
چھپ چھپ نیر بہائے سانول

No comments:

Post a Comment