Monday 30 January 2012

rahat e jaan say to yeah dil ka vabal acha hy


راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا، ترا حال اچھا ہے

ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے

ترے آنےسے کوئ ہوش رہے یانہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے

یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جاۓ کوئ
اسے دے دے کوئ اچھی سی مثال اچھا ہے

دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے

سخت غصہ میں بھی یہ سوچ کے ہنس دیتا ہوں
یہ وہی شخص ہے جو وقت وصال اچھا ہے

آو پھر دل کے سمندر کی طرف لو ٹ چلیں
وہی پانی ، وہی مچھلی ، وہی جال اچھا ہے

چھوڑیۓ اتنی دلیلوں کی ضرورت کیا ہے
ہم ہی گاہک ہیں برے آپ کا مال اچھا ہے

کوئ دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے

کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

عدیم ھاشمی


No comments:

Post a Comment