Monday 30 January 2012

miloo hum say bus tanhyi kehni hy

َ

ملو ہم سے ۔۔ حصہ دوم

ملو ہم سے
ہمیں تنہائی کہتی ہے
مجھے بھی ساتھ ہی رکھو
ہمیں تنہائی یہ کہتی ہے اور دامن پکڑ کر ساتھ چل پڑتی ہے بستی میں
وہ جس شب
تم نے آنے کا کہا لیکن آئے
اسی پل سے ستارے رات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اور کئی جنگل بھری برسات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اب کہاں ہو تم
ملو ہم سے ،ملو ہم سے
ہم اپنی ذات سے بچھڑے ہو ئے ہیں
ہاں ملو ہم سے
ہمیں زخمی تمناؤں کے افسردہ غلافوں اور ردائے کرب میں پالا گیا ہے
اور ہماری پرورش جس ہجر کے ہاتھوں ہوئی ہے
عمر سے بے سائبانی کے کٹہرے میں کھڑا
اپنی صفائی دے رہا ہے
جو عدالت مر چکی ہو
اس عدالت میں کسی کی کون سنتا ہے
یا آخر کون سن سکتا ہے ایسے میں
جہاں خود مدعی ملزم ہو
اور الزام کا مطلب جہاں بس جرم ہو
تو فیصلے میں دیر کا ہے کی
ملو ہم سے
ہمارے فیصلے بھی ہو چکے ہیں بن گواہوں کے
فقط تقدیر کی مانی گئی ہے
ہم مقدر کے ستارے سے گرے
امید کی اجڑی ہوئی شاخوں پہ لٹکے ہاتھ اور پاؤں ہلاتے جارہے ہیں
ہم یہی کچھ ہیں

No comments:

Post a Comment