Monday 30 January 2012

tumhara pyara chup chup k kayi chehray badlta hy




تمھارا پیارا چھپ چھپ کر کئی چہرے بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تمھارا ہجر شدت سے میرے دل کو مسلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

سمندر آشنا آنکھوں میں صحرا آن بستے ہیں تمھیں جب بھول جاتا ہوں
پھر ان صحراؤں میں اک خواب کا چشمہ نکلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

میں اپنے ہاتھ سے تیری سنہری یاد کی پلکیں سجاتا ہوں خیالوں میں
خیالوں میں تیرا موسم کئی پہلو بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

تیری پر چھائیاں، ہر سو میرے، تنہائیوں کا رقص کرتی ہیں اداسی پر
میرے سینے میں اک بے چین سا بچہ مچلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

کسی فٹ پاتھ پر، بازار میں باغات میں یا پھر کسی دریا کنارے پر
بہت خوش ہو کے جب کوئی کسی کے ساتھ چلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

میں سارا دن کوئی سنگی مجسمہ بن کے رہتا ہوں مگر جب شام ڈھلتی ہے
میرے دل کی جگہ پر کوئی پتھر سا پگھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

تصور میں تمھارے سنگ بیتی بارشیں اکثر تمھیں آواز دیتی ہیں
نگاہوں میں تمھاری دھوپ کا اک دیپ جلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

کبھی کوئی ستارہ آنکھ سے ہوتا ہوا بجھتا ہے آکے گود میں گر کر
بھی کوئی بہت دور ابھرتا اور ڈھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

No comments:

Post a Comment