Monday 30 January 2012

a laga jungle dard dewaar say

َ


آلگا جنگل درد دیوار سے

اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے

ہمشکل بچاتے ہوئے
لوگو ں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل تو آیا
لیکن باہر آ کر پتہ چلا
کہ میرے پاؤں میری ٹانگوں کے ساتھ نہیں ہیں
میں واپس پلٹا
اور خاصی کوشش کے بعد صرف جوتے تلاش کر سکا
سڑک پار کرتے ہوئے
ایک رفتاری گاڑی کی زد میں آیا تو بچ نہ سکا
گاڑی مجھے اچھال کر دور پھینک گئی
اور جاتے جاتے میری ٹانگ اپنے ساتھ لے گئی
میرے جوتے وہیں پڑے رہ گئے
اور مجھے ہسپتا ل پہنچا دیا گیا
جہاں میری آنکھ
میری بے ہوشی کے عالم میں عطیے کے طور پہ لے لی گئی
کچھ دنوں بعد ہسپتال سے فارغ ہو کر نکلا
تو ایک جیب کترے سے ٹکرا گیا
جو جیب کو بالکل خالی پا کر
میری انگلیاں ہی کاٹ کر لے گیا
میں رپورٹ درج کرانے گیا تو
محافظوں نے کہا
کہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی
اتنے صحیح سلامت بازو کھلے عام ساتھ لیے پھرے
اور پھر انھوں نے احتیاطاً میرے ہاتھ جسم سے کاٹ کے اپنے
مال خانے میں رکھ لیے
وہاں سے چلا اور بازار میں آیا
تو جگہ جگہ اشتہاروں بینروں سے دیواریں بھری نظر آئیں
جن میں ایمان والوں سے
ملک، قوم اور مذہب کے نام پر
سروں اور گردنوں کی قربانی پیش کرنے کی ایپلیں کی گئی تھیں
اس سے پہلے کہ کچھ سمجھتا یا سوچتا
عقیدوں اور نظریات کا ایک اژدہام مجھ پر حملہ آور ہو چکا تھا
جو بالآ خر میرا سر میرے تن سے جدا کر کے لے گیا
میں لڑ کھڑایا اور زمین پر آ رہا
دو تین پتھر یلی ایڑیاں مجھے کچلتے ہوئے گزر گئیں
ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ
دو یخ برفیلے ہاتھوں نے اٹھایا میرا کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بدن
اور ہاتھ سے دھکیلے جانے والے ایک چھوٹے سے لکڑی کے
چھکڑے لٹا دیا
چھکڑا ہلا اور ایک سمت دھکیلا جانے لگا
ساتھ ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی
" دے غریب کو اللہ تجھے ساری دنیا کی بادشاہت دے "
" دے غریب کو اللہ تجھے زندگی میں کوئی دکھ نہ دے "
کچھ ہی دیر بعد
چھوٹے چھوٹے سکے میرے شکستہ جسم پر گرنے لگ
ے

No comments:

Post a Comment