Monday 30 January 2012

miloo hum say

َ

ملو ہم سے ۔۔ حصہ سوم

ملو ہم سے
ہمارے نام جن ٹیلوں پہ کوئی دھوپ لکھ کر رکھ گئی تھی جل چکے ہیں اور
ہمارا رزق جن رستوں پہ کوئی بھوک پھیلا کر
ہماری کاوشوں پر ہنس گئی تھی
ہم وہی کچھ ہیں
ہمیں اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
انا نے کب نہیں توڑا ہمیں
اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
ہمیں ملنے ملانے دو
ملو ہم سے
ہمارے درد سے کھیلو
ہمیں لاچار رہنے دو
میری جاں تم ستارے توڑ لانے کی جہاں بھی بات کرتے ہو
ہمارے ہاتھ روتے ہیں
ہمارا دل بھی روتا ہے
تمھارے بھولپن کی شکلیں یا مشکلوں کا بھولپن
اکثر ہمیں بیمار رکھتا ہے
ملو ہم سے
ہماری خاک راہوں میں اڑاؤ
اور ہماری گرد سے کھیلو
زباں پر نا سمجھ باتوں کے الزامات کی بوجھاڑ کر دو
اور سکوت زرد سے کھیلو
گلے لگ کر ہماری خواہشوں کی برف کے اثرات جھیلو
اور سانسوں کی ہوائے سرد سے کھیلو
سمندر پار کرنے کا مصمّم خواب دیکھیں
اور پھر اس کی عجب تعبیر سے نظریں چرائیں
کیسا لگتا ہے ؟
ہم اپنے ساحلوں پر ادھ کھلے جن بادبانوں سے بندھے ہیں بادباں
کب ہیں

No comments:

Post a Comment