Monday 30 January 2012

hoountoun pay kabhi unkay mera naam hi ay


ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دلگِیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجالیں گے رہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گِلہ ہم سفروں سے
جِس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کُوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبئہِ ناکام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ، اداؔ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشئہِ انجام ہی آئے

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment