Monday 30 January 2012

teray terhray hoy pakar mein


بین

تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
گرمی خون کی تضحیک پہ شرمندہ ہیں
ہم گنہگار تیرے
آرزوؤں کی جواں سالی کی پامالی پر
عمر کے سنگی قدم پڑتے ہوئے دیکھتے رہتے تھے مگر کیا کرتے
رات دن وقت کے مینا سے غم
اور ہم تکتے رہے تکتے رہے
تیری ہمت تھی کہ ادھڑے ہوئے سینے کو لگا کر سینے
جنگ کے مدمقابل بیٹھے
کشمکش روح جلا دیتی ہے
حیف ہے ہم نے جو دیکھی ہو کبھی دھند تیری آنکھوں میں
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
زندگی برف کا بت چھوڑ گئی
موت کے لمس کا پتھریلا پن
نرمی قلب پہ ہنستے ہوئے کچھ کہتا ہے
داستانوں سے گرے لفظ کی تعظیم میں
مٹی نے تجھے گود لیا
خاک ہی خاک کو کھا سکتی ہے
ورنہ رہ جائیں نشاں ہونٹوں پر
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
جاتے جاتے ہوئے موسم کی تھکی ہاری طمانیت ہے
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
میری سنولائی ہوئی روح بھی ہے
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
میرا کجلایا ہوا درد بھی ہے
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
میری مرجھائی ہوئی آس بھی ہے
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
میری گھبرائی ہوئی سانس بھی ہے
تیرے ٹھٹھرے ہوئے پیکر میں
میرا ٹھٹھرایا ہوا مان بھی ہے
میرا ٹھٹھرائی ہوئی جان بھی ہے

No comments:

Post a Comment