Monday 30 January 2012

ub tu ho kisi rung mein zahir to mujhy kia


اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا

ویرانہء جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا

وہ شمّع مرے گھر میں تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں وہ جنس ہو نادر تو مجھے کیا

وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا

مَیں نے اُسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا مَیں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا

دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا

اِک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا

No comments:

Post a Comment