َ
بین
زندگی جیسے کوئی زرد سفر موت زدہ
سنگ، حیوان، شجر، موت زدہ
مسکرائیں تو ہنسے جاتی ہے
زخم کھائی ہوئی تقدیر ڈگر موت زدہ
اور رونے کے لیے بیٹھیں تو رومالوں پر
جھرجھراتا ہوا ایمان سلگ اٹھتا ہے
جذب ہونے ہی نہیں دیتا کسی آنسو کو
بھیگ جاتی ہے جبیں صدمے کی
دن چمکتا ہے سر وہم تمنا اور پھر
دور گرتی ہوئی پیلاہٹ میں
چُرمرائی ہوئی اک شام لٹک آتی ہے
رات پڑتی ہے تو کرتے ہیں بسر موت زدہ
اس طرح جیسے صلیبوں سے بندھی بے چینی
موت سے اگلا کوئی خوف بسر کرتی ہے
کس فرشتے کا گریبان پکڑ کر پوچھیں
ہنستے بستے ہوئے بازاروں پر
کس نے ڈالی ہے نظر موت زدہ
دل لب درد
پریشان خیالات کی چھوکٹ سے لگا بیٹھا ہے
جس طرح سے کوئی پس ماندہ عزیز
دم بہ دم ڈوبتی یادوں کی صف ماتم پر
تھام کر بیٹھا ہو سر موت زدہ
زندگی
زندگی، درد کا گھر موت زدہ
کھڑکیاں سرد
دریچے خاموش
صحن ویران
شجر موت زدہ
روح سنسان
خبر موت زدہ
دل بیابان
اثر موت زدہ
بستیاں، گاؤں، محلے، چوپال
ادھ مری آس، بشر موت زدہ
زندگی جیسے کوئی زرد سفر موت زدہ
سنگ، حیوان، شجر، موت زدہ
مسکرائیں تو ہنسے جاتی ہے
زخم کھائی ہوئی تقدیر ڈگر موت زدہ
اور رونے کے لیے بیٹھیں تو رومالوں پر
جھرجھراتا ہوا ایمان سلگ اٹھتا ہے
جذب ہونے ہی نہیں دیتا کسی آنسو کو
بھیگ جاتی ہے جبیں صدمے کی
دن چمکتا ہے سر وہم تمنا اور پھر
دور گرتی ہوئی پیلاہٹ میں
چُرمرائی ہوئی اک شام لٹک آتی ہے
رات پڑتی ہے تو کرتے ہیں بسر موت زدہ
اس طرح جیسے صلیبوں سے بندھی بے چینی
موت سے اگلا کوئی خوف بسر کرتی ہے
کس فرشتے کا گریبان پکڑ کر پوچھیں
ہنستے بستے ہوئے بازاروں پر
کس نے ڈالی ہے نظر موت زدہ
دل لب درد
پریشان خیالات کی چھوکٹ سے لگا بیٹھا ہے
جس طرح سے کوئی پس ماندہ عزیز
دم بہ دم ڈوبتی یادوں کی صف ماتم پر
تھام کر بیٹھا ہو سر موت زدہ
زندگی
زندگی، درد کا گھر موت زدہ
کھڑکیاں سرد
دریچے خاموش
صحن ویران
شجر موت زدہ
روح سنسان
خبر موت زدہ
دل بیابان
اثر موت زدہ
بستیاں، گاؤں، محلے، چوپال
ادھ مری آس، بشر موت زدہ
उदास शामें , उजाड़ पथ कभी बुलाएं तो लौट आना
ReplyDeleteकिसी की आँखों में रतस्थों कयामत आई तो लौट आना
अभी नई घाटियों , नए मंजरों में रह लो मगर मेरी जां
ये सारे एक एक करके जब तुम छोड़ जाए तो लौट आना
जो शाम ढलते ही अपनी अभयारण्य लौटते हैं
अगर वह पंछी कभी कोई दास्ताँ सुनाई तो लौट आना
नए ज़माने का करब ओढ़े वृद्ध पल निढाल यादें
तुम्हारे सपनों के बंद कमरे में लौट आईं तो लौट आना
मैं दिन यूं ही हवा पे लिख लिख के उसकी ओर यह भेजता हूँ
कि अच्छे मौसम अगर पहाड़ों पर मुस्कुराई तो लौट आना
अगर अंधेरे में छोड़ कर तुम भूल जाएँ तुम्हारे साथी
और अपनी खातिर ही अपने अपने दिए जलाएँ तो लौट आना